۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 912
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اللہ کے بعد مسلمانوں پر سب سے زیادہ احسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جن کے ذریعے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمان کی دولت ملی اور کامل ضابطہ حیات نصیب ہوا تو جس طرح اللہ تعالیٰ خالق ومالک اور کائنات کا مدبر ومنتظم ہونے کی بنا پر، عبادت اور حمد وتسبیح کا حقدار ہے اس طرح آپﷺ کا ہم پرحق ہے کہ ہم آپﷺ پر درود وسلام بھیج کر، آپﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مزید رحمت ورافت اور رفع درجات کی دعا کریں۔ اور یہ درحقیقت آپﷺ کی بارگاہ میں عقیدت ومحبت کا ہدیہ، وفاداری و نیاز کیشی کا نذرانہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا اعتراف ہے۔ ورنہ ظاہر ہے آپﷺ کو ہماری ان دعاؤں کی کیا احتیاج ہے۔ اور ہم جیسے فقیروں اورمسکینوں کے ہدیوں اور تحائف کی کیا ضرورت ہے بلکہ اس دعا گوئی اور اظہار اطاعت کیشی کا سب سے بڑا فائدہ تو خود ہم کو پہنچتا ہے۔ ایک طرف ہمارا ایمانی رابطہ مستحکم ہوتا ہے تو دوسری طرف ہمیں ایک دفعہ کے مخلصانہ درود کے صلہ میں، اللہ تعالیٰ کی کم از کم دس رحمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اور ہمیں اپنی اوقات معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپﷺ جیسی مقدس ومحترم ہستی، اللہ کی رحمت وسلامتی کی محتاج ہے اور آپﷺ کا حق اور مقام عالی بس یہی ہے کہ آپﷺ کے واسطے رحمت وسلامتی کی دعائیں کی جائیں، رحمت وسلامتی آپﷺ کے ہاتھ میں نہیں ہے، اور جب آپﷺ کے ہاتھ میں نہیں تو پھر کسی اور مخلوق یا انسان کے ہاتھ میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ساری مخلوق میں آپﷺ کا مقام سب سے بالا اور برتر ہے، ہر انسان اللہ کے رحمت وسلامتی کا محتاج ہے اور اس کے بغیر کسی ہستی اور مخلوق سے یہ حاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے کوئی اس کا شریک وسہیم بھی نہیں ہے۔ 2۔ آل کا مفہوم: عربی زبان اور قرآن وحدیث کے محاورہ کی رو سے کسی شخص کے آل ان کو کہا جاتا ہے، جو اس کے ساتھ خصوصی تعلق وربط رکھتے ہوں، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو یا رفاقت، معیت اور عقیدت ومحبت کا یا اس کی اتباع واطاعت کا، قرآن مجید میں آلِ اِبرَاہِیم، آلِ عِمراَن اور آلِ فِرعَون سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ 3۔ قرآن مجید میں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود وسلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اس میں نماز یا غیر نماز کا تذکرہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ کی حمدوتسبیح کا حکم ہے۔ لیکن نماز یا غیر نماز کا تذکرہ نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نور نبوت کی روشنی میں حمد وتسبیح کا خاص محل نماز میں بیان فرمایا ہے اس طرح صلاۃ وسلام کے حکم کی تعمیل کا خاص محل وموقع نماز کے تشہد وقعود کو قرار دیا ہے لیکن جیسا کہ تسبیح وتمہید نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے اسی طرح درود وسلام بھی نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے آگے پیچھے بھی مطلوب ہے۔ 4۔ آخری قعدہ میں درود شریف کے پڑھنے کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک درود پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک درود پڑھنا سنت ہے، اگر کسی نے نہ پڑھا تو نماز ہو جائے گی چونکہ سورہ احزاب میں آپﷺ کے لیے صلٰوۃ وسلام بھیجنے کا حکم ہے اور اس کا خاص موقع ومحل نماز ہے اس لیے کم از کم نماز میں تو فرض ہونا چاہیے۔ 5۔ آپﷺ پردرود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجنے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر درود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پردرود سے قوی ہے علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں آسان جواب یہ ہے کہ تشبیہ صرف نزول رحمت میں ہے، اس کی کیفیت کا لحاظ نہیں ہے۔ ایک چیز میں ایک صفت معروف اورمشہور ہوتی ہے تو دوسری چیز کو اگرچہ اس میں یہ صفت زائد اور قوی ہو پہلی چیز سے تشبیہ دے دی جاتی ہے حالانکہ اس پر یہ صفت کم ہوتی ہے۔ جیسا کہ کوئی انسان صفت جود وسخا میں کس قدر بڑھ جائے، اس کو تشبیہ حاتم کے ساتھ ہی دیں گے۔ اس طرح اللہ کے نور کو قرآن مجید میں ایک مخصوص قسم کےچراغ کے ساتھ دی گئی ہے، حالانکہ چہ نسبت خاکہ را بعالم پاک لیکن چونکہ انسانوں میں اس قسم کے چراغ کی روشنی معروف ومشہور تھی اس لیے اس کے ساتھ تشبیہ دے دی گئی اورکَمَا میں کیفیت کا لحاظ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ﴾ تو کیا ہمارے روزوں اور پہلی امتوں کے روزوں کی کیفیت میں یکسانیت ہے؟6۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور فقہاء کا قول یہ ہے کہ غیر انبیاء پر استقلالاً درود بھیجنا درست نہیں ہے۔ مثلاً اَبُوْبَکَر عَلَیْهِ الصَّلاَۃ یا عُمَر عَلَیْہِ الصَّلاۃ کہنا درست نہیں۔ اور امام جوینی کا خیال ہے سلام کا بھی یہی حکم ہے اور اس کے جواز کے لیے سورہ توبہ کی آیت: ﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ﴾ یا ﴿هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ﴾ استدلال کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ ان آیات میں یہ لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور کسی کے نام کے ساتھ استعمال کی صورت میں، یہ اصطلاحی معنی میں ہو گا، اور اصطلاحی رو سے یہ اَنبِیَاء عَلَیْہُمُ السَّلاَم کے ساتھ خاص ہے، اس طرح ملاقات کے سلام سے علیہ السلام کے جواز کے لیے استدلال کرنا درست نہیں ہے ورنہ۔ (السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين) کے تحت اور ﴿هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ﴾ کی رو سے صلوۃ وسلام ہر انسان کے لیے عام ہو جائے گا۔ اور اس کی وہ تعظیم وتوقیر قائم نہیں رہے گی جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہونے کی صورت میں، ان الفاظ کو حاصل ہے۔ اس لیے صلاۃ وسلام کا لفظ انبیاء علیہم السلام کے لیے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لفظ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر لغوی معنی کو ملحوظ رکھیں تو پھر ان کا استعمال ہر نیک انسان کے لیے عام ہو جائے گا اور ان کی معنویت ہی ختم ہو جائے گی، ہاں بالطبع ان کا استعمال جائز ہو گا۔ مثلاً اللهم صَلِّ وَسَلَّم عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِهِ وَاَزْوَاجِهِ وَذُرِّيتِهِ اِنَّكَ حمَِيدٌ مَّجِيْد۔