صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
12. باب نَهْيِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَهْرِهِ بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ إِمَامِهِ:
12. باب: امام کے پیچھے مقتدی کا بلند آواز سے قرأت کرنے کی ممانعت۔
Chapter: Prohibiting The Follower From Reciting Aloud Behind An Imam
حدیث نمبر: 887
Save to word اعراب
حدثنا سعيد بن منصور ، وقتيبة بن سعيد كلاهما، عن ابي عوانة، قال سعيد، حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن عمران بن حصين ، قال: " صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الظهر، او العصر، فقال: ايكم قرا خلفي، ب سبح اسم ربك الاعلى، قال رجل: انا، ولم ارد بها إلا الخير، قال: قد علمت ان بعضكم خالجنيها ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الظُّهْرِ، أَوِ الْعَصْرِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ قَرَأَ خَلْفِي، ب سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا، وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، قَالَ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا ".
ابو عوانہ نے قتادہ سے، انہوں نے زرارہ بن اوفیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی، پھر فرمایا: تم میں سے کس نے میرے پیچھے ﴿سبح اسم ربک الأعلی﴾ پڑھی؟ تو ایک آدمی نے کہا: میں نے، اور خیر کے سوا اس سے میں اورکچھ نہیں چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا: مجھے علم ہو گیا کہ تم میں سے کوئی مجھے اس (یعنی قراءت) میں الجھا رہا ہے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی، اور پوچھا، تم میں سے کس نے میرے پیچھے سورة ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلىٰ﴾ پڑھی تو ایک آدمی نے جواب دیا، میں نے اور اس سے میرا مقصد صرف خیر ہی تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جانا، تم میں سے کوئی میرے ساتھ قراءت میں الجھ رہا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 398

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   سنن النسائى الصغرى918عمران بن الحصينمن قرأ سبح اسم ربك الأعلى قال رجل أنا قال قد علمت أن بعضكم قد خالجنيها
   سنن النسائى الصغرى919عمران بن الحصينعرفت أن بعضكم قد خالجنيها
   سنن النسائى الصغرى1745عمران بن الحصينمن قرأ بسبح اسم ربك الأعلى قال رجل أنا قال قد علمت أن بعضهم خالجنيها
   صحيح مسلم888عمران بن الحصينظننت أن بعضكم خالجنيها
   صحيح مسلم887عمران بن الحصينعلمت أن بعضكم خالجنيها
   سنن أبي داود828عمران بن الحصينصلى الظهر فجاء رجل فقرأ خلفه سبح اسم ربك الأعلى
   سنن أبي داود829عمران بن الحصينصلى بهم الظهر فلما انفتل قال أيكم قرأ ب سبح اسم ربك الأعلى

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 887 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 887  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بلند آواز سے قرآءت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح امام کے لیے قرآءت کرنے میں دقّت پیدا ہوتی ہے اور بعض سری نمازوں (ظہر،
عصر)

میں بھی آپﷺ کے پیچھے فاتحہ کے بعد کوئی سورت بلند آواز میں پڑھ لیتے تھے اس لیے آپﷺ نے فاتحہ کے بعد والی قرآءت پر اعتراض کیا اور آہستہ پڑھنے کا حکم دیا۔
جس سے معلوم ہوا سری نمازوں میں فاتحہ کے بعد بھی کوئی سورت آہستہ پڑھی جائے گی جہری نمازوں (رکعتوں)
میں فاتحہ کے سوا کوئی قرآءت نہیں ہے الا یہ کہ مقتدی امام سے اس قدر فاصلہ پر ہو کہ وہاں تک قرآءت کی آواز نہ پہنچ رہی ہو تو پھر وہ فاتحہ کے بعد بھی قرآءت کرے گا لیکن یہ قرآءت آہستہ ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 887   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 829  
´امام زور سے قرآت نہ کرے تو مقتدی قرآت کرے اس کے قائلین کی دلیل۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر پڑھائی، تو جب آپ پلٹے تو فرمایا: تم میں سے کس نے (ہمارے پیچھے) سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی ہے؟، تو ایک آدمی نے کہا: میں نے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے محسوس ہوا کہ تم میں سے کسی نے میرے دل میں خلجان ڈال دیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 829]
829۔ اردو حاشیہ:
➊ قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلو ب ہے، اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کے لئے عربی اسلوب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قرأت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔
➋ ایسے لوگوں کا پیدا ہو جانا جو قرأت قرآن کو ریا، شہرت اور حطام دنیا (دنیوی ساز و سامان) جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیں، آثار قیامت میں سے ہے۔
➌ ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواز زیر و بم ہی کو قراءت جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کر لینا ازحد معیو ب ہے۔
➍ تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔
➎ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم «احق ما اخذتم عليه ا جرا كتاب الله» سب سے عمدہ چیز جس پر تم ا جر (عوض و اجرت) لے سکتے ہو، اللہ کی کتاب ہے۔ [صحيح بخاري كتاب الا جارة باب 16]
اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت، عوض نہ لینے میں ہے۔ تاہم امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے۔ ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کر لے۔ جناب حسن بصری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔ [حواله مذكور]
بہرحال مدرس اور داعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں، اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں اور عوض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے، کوئی جر م نہیں۔ لیکن نیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 829   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 918  
´سری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی تو ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو پوچھا: سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» کس نے پڑھی؟ تو اس آدمی نے عرض کیا: میں نے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 918]
918 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمران کا یہ کہنا کہ ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورۃ الاعلیٰ پڑھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ اونچی میں پڑھی تھی، تبھی تو راویٔ حدیث نے سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کسی نے مجھے خلجان شک و اشتباہ اور اختلاط) میں ڈالا ہے۔ بھی اسی کے مؤید ہیں کہ اس نے کچھ اونچی آواز سے پڑھنے پر ہے جس سے کسی ساتھی یا امام کو تشویش ہو۔ اگر آہستہ پڑھنے کہ کسی سنائی نہ دے تو کوئی حرج نہیں۔
➋ سری نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ زائد سورت بھی پڑھ سکتا ہے، لہٰذا باب میں امام صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ قرأت نہ کرنا سے مراد ہے، بلند آواز سے نہ پڑھنا یا فاتحہ سے زائد نہ پڑھنا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 918   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 919  
´سری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر پڑھائی، اور ایک آدمی آپ کے پیچھے قرآت کر رہا تھا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو پوچھا: تم میں سے سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» کس نے پڑھی ہے؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں نے، اور میری نیت صرف خیر کی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے بعض نے مجھ سے سورۃ پڑھنے میں خلجان میں دال دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 919]
919 ۔ اردو حاشیہ: کوئی بھی ایسا کام جو ظاہراً بڑا خوبصورت اور نیکی معلوم ہو لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہو یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اس پر ثبت نہ ہو، وہ عنداللہ مقبول نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 919   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1745  
´اس حدیث میں شعبہ کی قتادہ سے روایت میں شعبہ کے شاگردوں کے اختلاف کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، تو ایک شخص نے سورۃ «‏سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی، تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ نے پوچھا: «‏سبح اسم ربك الأعلى» کس نے پڑھی ہے؟ تو ایک شخص نے عرض کیا: میں نے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1745]
1745۔ اردو حاشیہ: جہری نماز میں اثنائے قرأت امام کے پیچھے فاتحہ کے سوا قرأت کرنا منع ہے۔ سری نماز میں زائد قرأت کی جا سکتی ہے مگر وہ کسی کو سنائی نہ دے ورنہ شور ہو سکتا ہے، نیز ایک آدمی کے اونچا پڑھنے سے امام یا ساتھیوں کو غلجان و اشتباہ ہو سکتا ہے اور دوسروں کو پریشان کرنا قطعاً جائز نہیں۔ قرأت کے علاوہ دیگر اور دوتسبیحات بھی دوسروں کو سنائی نہیں دینی چاہییں، البتہ نمازی اکیلا ہو تو مناسب آواز سے پڑھ سکتا ہے۔ فرض ہوں یا نفل، نماز سری ہو یا جہری اور قرأت ہو یا تسبیحات واور اد۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1745   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.