حدثنا حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة في قوله " ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن سورة النساء آية 127 الآية، قالت: هي اليتيمة التي تكون عند الرجل لعلها ان تكون قد شركته في ماله حتى في العذق، فيرغب يعني ان ينكحها ويكره ان ينكحها رجلا، فيشركه في ماله فيعضلها ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْله " وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ سورة النساء آية 127 الْآيَةَ، قَالَتْ: هِيَ الْيَتِيمَةُ الَّتِي تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لَعَلَّهَا أَنْ تَكُونَ قَدْ شَرِكَتْهُ فِي مَالِهِ حَتَّى فِي الْعَذْقِ، فَيَرْغَبُ يَعْنِي أَنْ يَنْكِحَهَا وَيَكْرَهُ أَنْ يُنْكِحَهَا رَجُلًا، فَيَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ فَيَعْضِلُهَا ".
ابو اسامہ نے کہا: ہمیں ہشام نے اپنے والد سے خبر دی انھوں نے اس عزوجل کے فرمان: "اور یہ لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہیے اللہ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔"مکمل آیت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: یہ ایسی یتیم لڑکی (کے بارے میں) ہے جوکسی آدمی کے پاس ہوتی ہے شاید وہ ایسی بھی ہوتی ہے کہ وہ اس کے مال میں حتیٰ کہ کھجور کے درختوں میں بھی اس کے ساتھ شریک ہوتی ہے وہ خود بھی اس سے روگردانی کرتا یعنی اس سے شادی کرنے سے اور کسی اور کے ساتھ اس کی شادی کر کے اس (شخص) کو اپنے مال میں شریک کرنے کو بھی پسند نہیں کرتا تو وہ اسے ویسے ہی رہنے دیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں"لوگ آپ سےعورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں،فرمادیجئے،اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے،الا یہ فرماتی ہیں،اس سے مراد یتیم بچی ہے،جو کسی مرد کی سرپرستی میں ہے،شاید کہ وہ اس مرد کے مال میں حصہ دار ہے،حتی کہ وہ کھجور کے درخت میں شریک ہے،تو وہ اس سے خود نکاح کرنے سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے اور وہ اس کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ کسی اور مرد سے اس کی شادی کردے،وہ اس کا مال میں حصہ دار بن جائے گا،اس لیے وہ یتیم بچی کو (نکاح سے) روکے رکھتا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7532
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یتیم بچی جب اپنے عم زاد کی کفالت میں ہوگی، تو پنے باپ کی وراثت میں حصہ لےگی، اس لیے وہ اپنے ولی(سرپرست) کے ساتھ مال میں حصہ دار ہوگی، جب وہ آگے شادی کرلے گی، تو اس کامال، اپنے ولی کی نگرانی سے نکل کر یتیم بچی کے خاوندکی نگرانی میں چلاجائے گا اور یہ بات سرپرست کو پسند نہیں ہے، اس لیے اگرچہ خود تو اس بچی کے ساتھ نکاح نہیں کرتا، اس کا آگے بھی نکاح نہیں کرتا، تاکہ اس کے مال پر تصرف کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے، شریعت اس ظلم کی کیسے اجازت دے سکتی تھی، اس لیے اس کے بارے میں ہدایات نازل کی گئیں۔