حدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، وحرملة بن يحيى التجيبي ، قال ابو الطاهر: حدثنا، وقال حرملة: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، انه سال عائشة ، عن قول الله وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع سورة النساء آية 3، قالت: يا ابن اختي هي اليتيمة تكون في حجر وليها تشاركه في ماله، فيعجبه مالها وجمالها، فيريد وليها ان يتزوجها بغير ان يقسط في صداقها، فيعطيها مثل ما يعطيها غيره، فنهوا ان ينكحوهن إلا ان يقسطوا لهن ويبلغوا بهن اعلى سنتهن من الصداق، وامروا ان ينكحوا ما طاب لهم من النساء سواهن، قال عروة: قالت عائشة: ثم إن الناس استفتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الآية فيهن، فانزل الله عز وجل ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن وما يتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما كتب لهن وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127، قالت: والذي ذكر الله تعالى انه يتلى عليكم في الكتاب الآية الاولى التي، قال الله فيها: وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء سورة النساء آية 3، قالت عائشة: وقول الله في الآية الاخرى وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127 رغبة احدكم عن اليتيمة التي تكون في حجره حين تكون، قليلة المال والجمال، فنهوا ان ينكحوا ما رغبوا في مالها وجمالها من يتامى النساء إلا بالقسط من اجل رغبتهم عنهن "،حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: حَدَّثَنَا، وقَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ سورة النساء آية 3، قَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا تُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ فِيهِنَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَى الَّتِي، قَالَ اللَّهُ فِيهَا: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الْآيَةِ الْأُخْرَى وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 رَغْبَةَ أَحَدِكُمْ عَنِ الْيَتِيمَةِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ حِينَ تَكُونُ، قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ "،
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ عزوجل نے فرمان: "اگر تمھیں خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں کے معاملے میں انصاف نہیں کر پاؤ گے تو ان عورتوں میں سے، جو تمھیں اچھی لگیں دو، دو، تین، تین چار، چار سے نکاح کرلو"کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: میرے بھانجے!یہ اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی کی کفالت میں ہوتی ہے اس کے (موروثی) مال میں اسکے ساتھ شریک ہوتی ہے تو اس کے ولی (چچازاد وغیرہ) کو اس کا مال اور جمال دونوں پسند ہوتے ہیں اور اس کا ولی چاہتا ہے کہ اس کے مہر میں انصاف کیے بغیر اس سے شادی کرلےاور وہ بھی اسے اتنا مہر دے جتنا کوئی دوسرااسے دے گا، چنانچہ ان (لوگوں) کو اس با ت سے روک دیا گیا کہ وہ ان کے ساتھ شادی کریں الا یہ کہ وہ (مہر میں) ان سے انصاف کریں اور مہرمیں جو سب سے اونچا طریقہ (رائج) ہے اس کی پابندی کریں اور (اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو) انھیں حکم دیا گیا کہ ان (یتیم لڑکیوں) سے سوا جو عورتیں انھیں اچھی لگیں ان سے شادی کرلیں۔ عروہ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر لوگوں نے اس آیت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عورتوں کے حوالے سے مزید) دریافت کیا تو اللہ عزوجل نے (یہ آیت) نازل فرمائی: "اور یہ آپ سے عورتوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔کہیے: اللہ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھاجاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہےجنھیں تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جس بات کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کتاب میں تلاوت کی جاتی ہے، وہ وہی پہلی آیت ہے جس میں اللہ فرماتا ہے: "اگر تمھیں خدشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرپاؤ گےتو (دوسری) جو عورتیں تمھیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرو۔" حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: " اور تم ان کے نکاح سے رغبت کرتے ہو۔" (کا مطلب ہے کہ) جب تم میں سے کسی کی سرپرستی میں رہنے والی لڑکی مال اور جمال میں کم ہوتو اس سے (شادی کرنے سے) روگردانی کرنا، چنانچہ ان سے (نکاح کی) رغبت نہ ہونے کی بناء پر ان کو منع کیا گیا کہ وہ جن (یتیم لڑکیوں) کے مال اورجمال میں رغبت رکھتے ہیں ان سے بھی شادی نہ کریں الا یہ کہ (مہر میں) انصاف سے کام لیں۔
حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں، کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اللہ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا،"اگر تمھیں خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں کے معاملے میں انصاف نہیں کر پاؤ گے تو ان عورتوں میں سے،جو تمھیں اچھی لگیں دو،دو،تین،تین چار،چار سے نکاح کرلو"(نساء۔آیت نمبر3)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:اے میرے بھانجے!یہ اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی کی کفالت میں ہوتی ہے اس کے (موروثی) مال میں اسکے ساتھ شریک ہوتی ہے تو اس کے ولی(چچازاد وغیرہ) کو اس کا مال اور جمال دونوں پسند ہوتے ہیں اور اس کا ولی چاہتا ہے کہ اس کے مہر میں انصاف کیے بغیر اس سے شادی کرلےاور وہ بھی اسے اتنا مہر دے جتنا کوئی دوسرااسے دے گا،چنانچہ ان(لوگوں) کو اس با ت سے روک دیا گیا کہ وہ ان کے ساتھ شادی کریں الا یہ کہ وہ(مہر میں) ان سے انصاف کریں اور مہرمیں جو سب سے اونچا طریقہ(رائج) ہے اس کی پابندی کریں اور(اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو) انھیں حکم دیا گیا کہ ان(یتیم لڑکیوں) سے سوا جو عورتیں انھیں اچھی لگیں ان سے شادی کرلیں۔عروہ نے کہا:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:پھر لوگوں نے اس آیت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عورتوں کے حوالے سے مزید) دریافت کیا تو اللہ عزوجل نے (یہ آیت) نازل فرمائی:"اور یہ آپ سے عورتوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔کہیے:اللہ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھاجاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہےجنھیں تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔"(عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا:جس بات کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کتاب میں تلاوت کی جاتی ہے،وہ وہی پہلی آیت ہے جس میں اللہ فرماتا ہے:"اگر تمھیں خدشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرپاؤ گےتو(دوسری) جو عورتیں تمھیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرو۔"حضر ت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:اور بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان:" اور تم ان کے نکاح سے رغبت کرتے ہو۔"(کا مطلب ہے کہ) جب تم میں سے کسی کی سرپرستی میں رہنے والی لڑکی مال اور جمال میں کم ہوتو اس سے (شادی کرنے سے) روگردانی کرنا،چنانچہ ان سے(نکاح کی) رغبت نہ ہونے کی بناء پر ان کو منع کیا گیا کہ وہ جن(یتیم لڑکیوں) کے مال اورجمال میں رغبت رکھتے ہیں ان سے بھی شادی نہ کریں الا یہ کہ ان سے انصاف وعدل کریں،کیونکہ وہ ان سے(جمال ومال کی کمی کی صورت میں)بے رخی برتتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7528
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کامقصد یہ کہ جاہلیت کے دورمیں، جب کسی بچی کے چچازاد، سرپرست بن کر اس کی پرورش اور کفالت کرتے، تو اگر وہ مال دار اور حسین وجمیل ہوتی، اس سے شادی کرلیتے، لیکن ان کو ان کی حیثیت ومعیار کے مطابق مہر نہ دیتے، بلکہ بہت کم مہر دیتے، لیکن اگر وہ مال دار اور حسین و جمیل نہ ہوتی، تو اس سے شادی نہ کرتے، اس لیے فرمایا، جب تم ان کے حسن و جمال اور مال میں کمی کی بنا پران کو نظراندازکرتے ہو، تو حسن وجمال اور مال کی صورت میں بھی، ان کا پوراپورا حق اداکرو اور مہرمثل اداکرو، وگرنہ ان کے سوااور عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں، چار تک شادی کرسکتے ہو۔