10. باب: غسل جنابت کے لیے پانی کی مستحب مقدار، اور شوہر اور بیوی کا ایک برتن سے پانی لے کر ایک حالت میں غسل کرنا، اور ایک کا دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا۔
Chapter: The amount of water with which it is recommended to perform ghusl in the case of janabah; a man and woman washing from a single vessel; one of them washing with the left-over water of the other
ابن جریج نے عمرو بن دینار سے روایت کی، کہا: مجھے جتنا زیادہ (سےزیادہ) علم ہے اور جو میرے ذہن میں آتا ہے اس کے مطابق مجھے ابو شعثاء نے خبر دی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ ؓ کے بچے ہوئے پانی سے نہالیتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بچے ہوئے پانی سے نہاتے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 734
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت کےغسل سے بچے ہوئے پانی سے غسل کر سکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کا یہ نظریہ ہے۔ امام احمد اور داؤد ظاہری کے نزدیک عورت کے بچے ہوئے پانی سے جبکہ اس نے اکیلے غسل کیا ہو، مرد کے لیے غسل کرنا درست نہیں ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول دوسرے ائمہ کے موافق ہے۔ صحیح احادیث کا تقاضا یہی ہے کہ غسل کرنا درست ہے۔ اِلَّا یہ کہ عورت غسل کرتے وقت حزم واحتیاط سے کام نہ لیتی ہو اور مستعمل پانی، برتن میں گراتی ہو تو ایسی صورت میں انسان طبعی طور پر ایسے پانی کے استعمال سے کراہت محسوس کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 734
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 7
´عورت کے بچے ہوۓ پانی سے مرد کے غسل کرنے کا جواز` «. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يغتسل بفضل ميمونة رضي الله عنها . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے غسل کے پانی سے نہا لیا کرتے تھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 7]
� لغوی تشریح: «لِأَصْحَابِ السُّنَنِ» سے ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور اسی طرح دارمی، دارقطنی، ابن خزیمہ اور حاکم مراد ہیں۔ «جفنة»”جیم“ کے فتحہ اور ”فا“ کے سکون کے ساتھ ہے۔ بڑا پیالہ۔ عام لوگ اسے «اجانة»(چمڑے کی ٹوکری) کہتے ہیں۔ «لِيَغْتَسِلَ مِنْهَا» تاکہ اس کے پانی سے غسل کریں۔ «فَقَالتْ لهُ: اِنّي كنت جنباً» اس کا مطلب ہے کہ میں نے اس پانی سے غسل کیا ہے اور یہ ہانی میرے غسل کا بچا ہوا ہے۔ «لا یَجْنب» جنب، باب «سَمِعَ» اور «كَرُمَ» دونوں ابواب سے پڑھنا جائز ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ باب افعال ہے ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جنبی کسی برتن سے پانی لے کر غسل کرے تو اس کی وجہ سے باقی پانی ناپاک نہیں ہو جاتا۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے عورت کے بچے ہوۓ پانی سے مرد کے غسل کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس پر قیاس کیا جائے گا کہ مرد کے بچے ہوۓ پانی سے عورت بھی غسل کر سکتی ہے، لیکن اس حدیث سے کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ یہ پہلی حدیث کے مخالف ہے۔ درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی سہولت اور آسانی کے لیے ایسا فرمایا ہے اور خود عمل کر کے بتا دیا۔ دونوں احادیث اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ➋ پہلے حدیث میں جو نہی ہے وہ نہی تنزیہی ہے، تحریمی نہیں۔ یہ حدیث جواز پر اور پہلے حدیث ترک کے اولیٰ ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ بچنا بہتر ہے۔
راویٔ حدیث: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما: ان کا نام عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب تھا۔ یہ وہی صحابی ہیں جنہیں اس امت کے پیشوا اور بحرالعلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بہت ذہین تھے۔ اپنی امامت علمی کی وجہ سے تعارف سے مستغنی ہیں، اس لئے کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و حکمت اور فقہ و تاویل میں برکت کی دعا دی تھی۔ ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے اور 67 ہجری میں طائف کے مقام پر وفات پائی۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا: میمونہ بنت حارث ہلالیہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 7 ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر ان سے نکاح کیا۔ 61 یا 51 یا 66 ہجری میں فوت ہوئیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 7
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 68
´غسل جنابت کا بچا ہوا پانی نجس نہیں` «. . . اغْتَسَلَ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَفْنَةٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَتَوَضَّأَ مِنْهَا أَوْ يَغْتَسِلَ فَقَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ. . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ایک لگن سے (چلو سے پانی لے لے کر) غسل جنابت کیا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن میں بچے ہوئے پانی سے وضو یا غسل کرنے کے لیے تشریف لائے تو ام المؤمنین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی (اور یہ غسل جنابت کا بچا ہوا پانی ہے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی ناپاک نہیں ہوتا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 68]
فوائد و مسائل: ➊ یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم صحیح مسلم کی حدیث میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے (غسل سے) بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم حديث: 323] غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے سنن ابي داود حدیث [68] کو صحیح کہا ہے۔ ➋ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا مستعمل بقیہ پانی پاک اور قابل استعمال رہتا ہے۔ ➌ اور وہ حدیث جس میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، وہ نہی تنزیہی ہے (یعنی اس ممانعت پر عمل کرنا بہتر ہے)۔ [سنن نسائي، حديث:239]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 68
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 326
´غسل جنابت کا بچا ہوا پانی نجس نہیں` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی نے غسل جنابت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 326]
326۔ اردو حاشیہ: مذکور روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر شواہد کی بنا پر صحیح ہے، خصوصاً یہی روایت مفہوماً ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے صحیح مسلم میں موجود ہے، محقق کتاب نے بھی تحقیق میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 323]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 326
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 7
«ومستعمل وغير مستعمل» ”مستعمل اور غیر مستعمل (پانی میں کوئی فرق نہیں)۔“ مستعمل (استعمال شدہ) پانی طاہر (پاک) ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: ❀ حضرت عروہ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ» نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریب ہوتے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے (بچے ہوئے) پانی کو لینے میں جھگڑا نہ شروع کر دیں۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 189، أحمد 329/4 - 330] ❀ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا تو لوگوں کی یہ حالت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے پانی کو حاصل کر کے اسے (اپنے جسموں پر) لگاتے تھے۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 187] ❀ جب جابر رضی اللہ عنہ مریض تھے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوء کا پانی ان پر بہایا۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى/ بَابُ وُضُوءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ:/ ح: 5676] مستعمل پانی مطہر (یعنی پاک کرنے والا) بھی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے اثبات کے لیے علماء کی طرف سے پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرنا تو محل نظر ہے لیکن یہ مسئلہ صحیح ثابت ہے۔ ❀ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ «أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مِنْ فَضْلِ مَاءٍ كَانَ فِي يَدِهِ» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اسی زائد پانی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود تھا۔“[سنن ابي داود ح: 130]۱؎ ❀ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک ٹب میں غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹب سے وضو یا غسل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ میں جنبی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ»”بے شک پانی ناپاک نہیں ہوتا۔“[أبو داود 68]۲؎ واضح رہے کہ مستعمل پانی سے مراد فقہاء کے نزدیک ایسا پانی ہے جسے جنابت رفع کرنے کے لیے، یا رفع حدث (یعنی وضو یا غسل)کے لیے، یا ازالہ نجاست کے لیے، یا تقرب کی نیت سے اجر و ثواب کے کاموں (مثلاًً وضو پر وضو کرنا یا نماز جنازہ کے لیے، مسجد میں داخلے کے لیے، قرآن پکڑنے کے لیے وضو کرنا وغیرہ) میں استعمال کیا گیا ہو۔ [فتح القدير 58/1]۳؎
مستعمل پانی کے حکم میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ (ابوحنفیہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ) کسی حال میں بھی ایسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔ امام لیث رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے۔ (مالکیہ) مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں۔ (ابویوسف رحمہ اللہ) مستعمل پانی نجس ہے (یاد رہے کہ یہ اپنے قول میں منفرد ہیں)۔ (اہل ظاھر) مستعمل پانی اور مطلق پانی میں کوئی فرق نہیں (یعنی جیسے مطلق پانی طاہر و مطہر ہے اسی طرح مستعمل پانی بھی طاہر و مطہر ہے) امام حسن، امام عطاء، امام نخعی، امام زہری، امام مکحول، اور امام احمد رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب مروی ہے۔ [بدائع الصنائع 66/1]۴؎ (راجح) مستعمل پانی طاہر ومطہر ہے جیسا کہ ابتدا میں دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔ (شوکانی رحمہ اللہ) مستعمل پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [نيل الأوطار 85/1] (ابن رشد رحمہ اللہ) مستعمل پانی حکم میں مطلق پانی کی طرح ہی ہے۔ [بداية المجتهد 55/1] (صدیق حسن خان رحمہ اللہ) حق بات یہی ہے کہ مجرد استعمال کی وجہ سے پانی پاک کرنے والی صفت سے خارج نہیں ہوتا۔ [الروضة الندية 68/1] (ابن حزم رحمہ اللہ) استعمال شدہ پانی کے ساتھ غسل جنابت اور وضو جائز ہے قطع نظر اس سے کہ دوسرا پانی موجود ہو یا نہ ہو۔ [المحلى بالآثار 182/1]
استعمال شدہ پانی کو مطہرنہ کہنے والوں کے دلائل اور ان پر حرف تنقید ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں تو اس میں کوئی مضائقہ ہیں۔ [سنن ابن ماجه/ ح: 374]۵؎ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ جواز کی احادیث کے قرینہ کی وجہ سے اس حدیث کی ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کیا جائے گا۔ [سبل السلام 26/1] جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم/ 323]۶؎ ❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري/ ح 239] ان کے نزدیک (مذکورہ حدیث میں) ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں پانی مستعمل ہو کر غیر مطہر نہ ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجو نہیں بلکہ منع کا سبب زیادہ سے زیادہ صرف یہی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور اس کا نفع جاتا رہے اس بات کی تائید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے ہوتی ہے کو ”وہ شخص اسے (یعنی پانی کو) باہر نکال کر استعمال کر لے۔“[نيل الأوطار 58/1]۷؎ امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ہم نے احناف کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے عجیب ترین قول یہ ہے کہ ایک صاف ستھرے طاہر مسلمان کے وضو کا مستعمل پانی مردہ چوہے سے زیادہ نجس ہے۔ [المحلى بالآثار 150/1] ------------------ ۱؎[حسن: صحيح أبو داود 120، كتاب الطهارة: باب صفة وضوء النبى، أبو داود 130، تر مذي 33] ۲؎[صحيح: صحيح أبو داود 16، كتاب الطهارة: باب الماء لا يجنب أبو داود 68، ابن ماجة 364، عارضة الأحوذي 82/1] ۳؎[كشاف القناع 31/1-37، المغني 10/1، ہداية المجتهد 26/1، بدائع الصنائع 69/1، الدر المختار 182/1، فتح القدير 58/1] ۴؎[والمجموع 151/1، المبسوط 46/1، بدائع الصنائع 66/1، مختصر الطحاوي 16، المغني 47/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/40، اللباب 76/1، الأصل 125/1] ۵؎[صحيح: صحيح ابن ماجه 300، كتاب الطهارة وسننها: باب النهي عن ذلك، ابن ماجة 374، طحاوي 64/1، دار قطني 26/1] ۶؎[مسلم 323، كتاب الحيض: باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، احمد 366/1، بيهقي 188/1] ۷؎[نيل الأوطار 58/1، السيل الجرار 57/1، المحلي 186/1] * * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 135
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث370
´عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی رخصت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی نے لگن سے غسل کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور اس بچے ہوئے پانی سے غسل یا وضو کرنا چاہا تو وہ بولیں: اے اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی ناپاک نہیں ہوتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 370]
اردو حاشہ: (1) ہمارے فاضل محقق کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم صحیح مسلم کی حدیث میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الحيض، باب القدر المستحب من الماء في غسل الجنابة، حدیث: 233) غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی ؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
(2) اس سے معلوم ہواکہ جنبی کا مستعمل بقیہ پانی پاک اور قابل استعمال رہتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 370
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 65
´عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کے جائز ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک بیوی نے ایک لگن (ٹب) سے (پانی لے کر) غسل کیا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس (بچے ہوئے پانی) سے وضو کرنا چاہا، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی، آپ نے فرمایا: پانی جنبی نہیں ہوتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 65]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت (غسل اور وضو) حاصل کرنا جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 65