وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا القاسم بن الفضل الحداني ، عن محمد بن زياد ، عن عبد الله بن الزبير ، ان عائشة ، قالت: عبث رسول الله صلى الله عليه وسلم في منامه، فقلنا: يا رسول الله، صنعت شيئا في منامك لم تكن تفعله؟، فقال: " العجب إن ناسا من امتي يؤمون بالبيت برجل من قريش، قد لجا بالبيت حتى إذا كانوا بالبيداء خسف بهم "، فقلنا: يا رسول الله، إن الطريق قد يجمع الناس، قال: " نعم، فيهم المستبصر والمجبور، وابن السبيل يهلكون مهلكا واحدا، ويصدرون مصادر شتى يبعثهم الله على نياتهم ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: عَبَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ شَيْئًا فِي مَنَامِكَ لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ؟، فَقَالَ: " الْعَجَبُ إِنَّ نَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَؤُمُّونَ بِالْبَيْتِ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قَدْ لَجَأَ بِالْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ "، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الطَّرِيقَ قَدْ يَجْمَعُ النَّاسَ، قَالَ: " نَعَمْ، فِيهِمُ الْمُسْتَبْصِرُ وَالْمَجْبُورُ، وَابْنُ السَّبِيلِ يَهْلِكُونَ مَهْلَكًا وَاحِدًا، وَيَصْدُرُونَ مَصَادِرَ شَتَّى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ ".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کے دوران (اضطراب کے عالم) میں اپنے ہاتھ کو حرکت دی تو ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے نیند میں کچھ ایسا کیا جو پہلےآپ نہیں کیا کر تے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ عجیب بات ہے کہ (آخری زمانےمیں) میری امت میں سے کچ لوگ بیت اللہ کی پناہ لینے والے قریش کے ایک آدمی کے خلاف (کاروائی کرنے کے لیے) بیت اللہ کا رخ کریں گے یہاں تک کہ جب وہ چٹیل میدان حصے میں ہوں گے تو انھیں (زمین میں) دھنسا دیا جائے گا۔"ہم نے عرض کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! راستہ تو ہرطرح کے لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔آپ نے فرمایا: "ہاں، ان میں سے کوئی اپنی مہم سے آگاہ ہوگا، کوئی مجبور اور کوئی مسافر ہوگا۔وہ سب اکھٹے ہلاک ہوں گے اور (قیامت کے روز) واپسی کے مختلف راستوں پر نکلیں گے اللہ انھیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھائے گا۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند میں اپنے جسم کو حرکت دی یا ہاتھ پیر ہلائے، چنانچہ ہم نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اپنی نیند میں ایسا کام کیا، جو آپ پہلے نہیں کرتے تھے۔سو آپ نے فرمایا:"حیرت انگیز بات ہے، میری امت کے کچھ لوگ، ایک قریشی آدمی کی خاطر جو بیت اللہ کی پناہ لے چکا ہو گا، بیت اللہ کا رخ کریں گے، حتی کہ جب وہ زمین کے ایک چٹیل میدان میں پہنچیں گے۔ انہیں دھنسا دیا جائے۔"چنانچہ ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !راستہ تو ہر قسم کے لوگوں کو جمع کر دیتا ہے، آپ نے فرمایا:"ہاں ان میں معاملہ سے آگاہ اس کی بصیرت رکھنے والے، مجبور اور مسافر بھی ہوں گے سب اکٹھے ہلاک ہو جائیں گے اور الگ الگ حیثیت سے انھیں گے۔اللہ ان کو ان کی نیتوں کے مطابق اٹھائےگا۔
يغزو جيش الكعبة فإذا كانوا ببيداء من الأرض يخسف بأولهم وآخرهم قالت قلت يا رسول الله كيف يخسف بأولهم وآخرهم وفيهم أسواقهم ومن ليس منهم قال يخسف بأولهم وآخرهم ثم يبعثون على نياتهم
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7244
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) عبث: جسم کو جنبش دی، ہاتھ پیر ہلائے المستبصر، معاملہ کی بصیرت رکھنے والا۔ (2) يصدرون مصادرشتي: الگ الگ اور متفرق طور پر واپسی ہوگی، ہر ایک سے اس کی نیت وعمل کے مطابق سلوک ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7244
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2118
2118. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک لشکر خانہ کعبہ پر چڑھائی کرے گا۔ جب وہ مقام بیداء پر پہنچے گا تو اول سے آخر تک تمام لشکر کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! تمام کوکیسے زمین میں دھنسا دیا جائےگا؟ جبکہ ان میں دوکانداربھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی جن کا لشکر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا: ”اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر انھیں اپنی اپنی نیتوں کے مطابق (قبروں سے) اٹھایا جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2118]
حدیث حاشیہ: سو اس سے کعبہ میں بازاروں کا وجود ثابت ہوا۔ یہی مقصد باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2118
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2118
2118. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک لشکر خانہ کعبہ پر چڑھائی کرے گا۔ جب وہ مقام بیداء پر پہنچے گا تو اول سے آخر تک تمام لشکر کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! تمام کوکیسے زمین میں دھنسا دیا جائےگا؟ جبکہ ان میں دوکانداربھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی جن کا لشکر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا: ”اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر انھیں اپنی اپنی نیتوں کے مطابق (قبروں سے) اٹھایا جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2118]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے مطابق مقام بیداء میں بازاروں یا بازار میں کام کرنے والے دکانداروں کا ثبوت ملتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے صرف اسی کو ثابت کرنے کے لیے حدیث کی ذکر کی ہے۔ (2) بازار میں اگرچہ شوروشغب ہوتا ہے لیکن اگر شرفاء اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے وہاں جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل شر اور فتنہ پرور لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنا خود اپنی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ (4) بعض روایات میں"أشرافهم"کے الفاظ ہیں اس بنا پر بخاری کے لیے بیان کردہ الفاظ أسوافهم پر تصحیف کا اعتراض کیا گیا ہے جو مبنی بر حقیقت نہیں۔ (فتح الباري: 430/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2118