حدثنا الحسن بن علي الحلواني ، ومحمد بن سهل التميمي ، قالا: حدثنا ابن ابي مريم ، اخبرنا محمد بن جعفر ، اخبرني زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري " ان رجالا من المنافقين في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى الغزو، تخلفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا قدم النبي صلى الله عليه وسلم اعتذروا إليه وحلفوا واحبوا ان يحمدوا بما لم يفعلوا، فنزلت لا تحسبن الذين يفرحون بما اتوا ويحبون ان يحمدوا بما لم يفعلوا فلا تحسبنهم بمفازة من العذاب سورة آل عمران آية 188 ".حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ " أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُنَافِقِينَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا إِذَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ، تَخَلَّفُوا عَنْهُ وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ وَحَلَفُوا وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا، فَنَزَلَتْ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ سورة آل عمران آية 188 ".
) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کچھ منافقین ایسے تھے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے لئے تشریف لے جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اپنے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو آپ کے سامنے عذر بیان کرتے اور قسمیں کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کاموں پر ان کی تعریف کریں جو انہوں نے نہیں کیے تھے، اس پر یہ (آیت نازل) ہوئی: "ان لوگوں کے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیا، ان کے متعلق یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچنے والے مقام پر ہوں گے۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کچھ منافق لوگ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے نکلتے، آپ سے پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے تو آپ کے سامنے عذر اور بہانے پیش کرتے اور قسمیں اٹھاتے اور پسند کرتے کہ جوکام انھوں نے نہیں کیا، اس پر ان کی تعریف کی جائے تو آیت نازل ہوئی:"جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے اور چاہتے ہیں جو کام انھوں نے نہیں کیے ان پر ان کی تعریف کی جائے، ان کے بارے میں خیال کیجیے انہیں عذاب سے بچ جانے والے نہ سمجھے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔"(آل عمران آیت نمبر88)
كان إذا خرج رسول الله إلى الغزو تخلفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله فإذا قدم رسول الله اعتذروا إليه وحلفوا وأحبوا أن يحمدوا بما لم يفعلوا فنزلت لا تحسبن الذين يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا ب
أن رجالا من المنافقين في عهد رسول الله كانوا إذا خرج النبي إلى الغزو تخلفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله فإذا قدم النبي اعتذروا إليه وحلفوا وأحبوا أن يحمدوا بما لم يفعلوا فنز
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7033
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ آل عمران کی یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے تو جان بوجھ کر جہاد کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جاتے تھے، اور پھر جب آپ غزوہ سے واپس تشریف لے آتے تو جھوٹے بہانے پیش کرتے اور قسمیں اٹھا کر اپنی جان نثاری اور وفاداری کا یقین دلاتے اوراپنی جھوٹی وفاداری کی تعریف کی خواہش کرتے، لیکن حضرت ابن عباس کی اگلی روایت سے معلوم ہوتا ہے، یہ ان یہود کے بارے میں اتری ہے، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتمان علم کرتے تھے اور پھر اپنے اس عمل پر خوش ہوتے تھے اور آپ کو خلاف واقعہ بات بتا کر چاہتے تھے، آپ ان کے اس عمل کی تعریف کریں، یعنی ان کے جھوٹ اور کتمان پر ان کی تعریف کریں، جس سے معلوم ہوا، دونوں کا طرز عمل اس کا مصداق ہے، گویا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی فرد کو، وہ مسلمان ہو یا منافق یا یہودی کسی برے کام کے کرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے، بھلا کرکے اترانا نہیں چاہیے اور جو اچھا کام نہیں کیا، اس پر تعریف کی خواہش نہیں کرنی چاہیے اور دوسروں کے کام کا کریڈٹ خود نہیں لینا چاہیے، بلکہ اچھا کام کرنے کے بعد بھی مدح سرائی کی توقع یا خواہش نہیں کرنی چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7033
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4567
4567. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کئی منافق ایسے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو وہ آپ ﷺ سے پیچھے (مدینہ ہی میں) رہ جاتے اور رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہنے پر بغلیں بجاتے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ جہاد سے واپس (مدینہ) آتے تو وہ (منافق) عذر پیش کر کے حلف اٹھا لیتے اور اس بات کو پسند کرتے کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا، اس میں بھی ان کی تعریف کی جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی: ”جو لوگ اپنے ناپسندیدہ کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا، اس پر بھی ان کی تعریف کی جائے (آپ انہیں عذاب سے نجات یافتہ خیال نہ کریں)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4567]
حدیث حاشیہ: یہ چند منافقین تھے جو جہاد سے جی چرا تے، ان کے مکر وفریب کا جال بکھیر دیا۔ ایسے کتنے لوگ آج بھی موجود ہیں کتنے بے نمازی ہیں جو اپنی حرکت پر شرمندہ ہونے کی بجائے الٹے نمازیوں سے اپنے کو بہتر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کتنے بدعتی مشرک ہیں جو اہل توحید پر اپنی برتری کے دعویدار ہیں۔ یہ سب لوگ اس آیت کے مصداق ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4567
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4567
4567. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کئی منافق ایسے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو وہ آپ ﷺ سے پیچھے (مدینہ ہی میں) رہ جاتے اور رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہنے پر بغلیں بجاتے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ جہاد سے واپس (مدینہ) آتے تو وہ (منافق) عذر پیش کر کے حلف اٹھا لیتے اور اس بات کو پسند کرتے کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا، اس میں بھی ان کی تعریف کی جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی: ”جو لوگ اپنے ناپسندیدہ کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا، اس پر بھی ان کی تعریف کی جائے (آپ انہیں عذاب سے نجات یافتہ خیال نہ کریں)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4567]
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث جو حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے۔ اس کے تقاضے کے مطابق یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی جبکہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کی شان نزول یہود مدینہ کا کردار ہے اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی یہود کے کرتوتوں کا ذکر چل رہا ہے تاہم اس مضمون میں منافقین تو کیا خود مسلمانوں کو شامل کیا جا سکتا ہے، یعنی جو شخص بھی ایسی شہرت پسند کرتا ہو کہ وہ بڑا مخلص، دیانتدار، ایثار، پیشہ خادم خلق اورعالم دین ہے یا ان میں سے کسی بھی صفت کی شہرت چاہتا ہو جبکہ حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو یا کسی نے اچھے کام میں محنت تو تھوڑی سی کی مگر شہرت و ناموری اس سے بہت زیادہ چاہتا ہو تو اس کا وہی حشر ہو گا جو آیت میں مذکورہ ہے۔ 2۔ بہر حال آیت کریمہ اگرچہ نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن لفظ کی عمومیت ہر اس شخص کو شامل ہے جو اچھا کام کرے پھر اس پر فخر و غرور کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرے اور یہ بھی پسند کرے کہ اس کے ناکردہ کاموں پر بھی لوگ اس کی تعریف کریں، لیکن حضرت ابن عباس ؓ کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے، اسے ان کا مسلک ہی قرار دیا جا سکتا ہے جو جمہور کے موقف کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4567