حدثني الحسن بن علي الحلواني ، ومحمد بن سهل التميمي واللفظ لحسن، حدثنا ابن ابي مريم ، حدثنا ابو غسان ، حدثني زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر بن الخطاب ، انه قال: قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبي، فإذا امراة من السبي تبتغي إذا وجدت صبيا في السبي اخذته، فالصقته ببطنها وارضعته، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اترون هذه المراة طارحة ولدها في النار؟ "، قلنا " لا والله وهي تقدر على ان لا تطرحه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لله ارحم بعباده من هذه بولدها ".حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ وَاللَّفْظُ لِحَسَنٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْيٍ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْيِ تَبْتَغِي إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْهُ، فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَرَوْنَ هَذِهِ الْمَرْأَةَ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ؟ "، قُلْنَا " لَا وَاللَّهِ وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لَا تَطْرَحَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا ".
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے، ان قیدیوں میں سے ایک عورت کسی کو تلاش کر رہی تھی، اچانک قیدیوں میں سے اس ایک کو بچہ مل گیا، اس نے بچے کو اٹھا کر پیٹ سے چمتا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: "کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟" ہم نے کہا: اللہ کی قسم! اگر اس کے بس میں ہو کہ اسے نہ پھینکے (تو ہرگز نہیں پھینکے گی۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا اس عورت کو اپنے بچے کے ساتھ ہے۔"
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صورت حال یہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی لائے گئے، چنانچہ قیدیوں میں سے ایک عورت کچھ تلاش کر رہی تھی کہ اچانک قیدیوں میں سے اسے ایک بچہ ملا اس نے اس کو پکڑ کر، اپنے پیٹ سے چمٹا لیا اور اسے دودھ پلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا:" کیا تمھارا خیال ہے، یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟"ہم نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جب تک اسے نہ ڈالنے کا اختیار ہے(یہ نہیں ڈالے گی) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی اپنے بندوں پر، اس کی اپنے بچے پر سے رحمت زیادہ ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6978
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے مقصود، اللہ کی رحمت کو والدہ کی رحمت سے تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے، محض اس کی محبت و رحمت کی کثرت اور وسعت بیان کرنا مطلوب ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو نظر انداز نہیں فرمائے گا، اگر مومن بندے دوزخ میں کچھ وقت کے لیے جائیں گے تو یہ ان کی بد اعمالیوں اور برائیوں کا نتیجہ ہوگا اور اس کی رحمت کے نتیجے میں دوزخ سے نکالے جائیں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6978
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5999
5999. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے۔ قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کی چھاتی دودھ سے بھری ہوئی تھی اور وہ ادھر ادھر دوڑ رہی تھی۔ اس دوران قیدیوں میں اسے ایک بچہ نطر آیا۔ اس نے جھٹ سے اس بچے کو اپنی چھاتی سے لگا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی۔ نبی ﷺ نے یہ منظر دیکھ کر ہم سے فرمایا: تم کیا خیال کرتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے کہا: نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہوسکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5999]
حدیث حاشیہ: غالباً یہ عورت کاگم شدہ بچہ تھا جو اسے مل گیا اور اس کو اس نے اس محبت کے ساتھ پیٹ سے چمٹالیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5999
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5999
5999. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے۔ قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کی چھاتی دودھ سے بھری ہوئی تھی اور وہ ادھر ادھر دوڑ رہی تھی۔ اس دوران قیدیوں میں اسے ایک بچہ نطر آیا۔ اس نے جھٹ سے اس بچے کو اپنی چھاتی سے لگا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی۔ نبی ﷺ نے یہ منظر دیکھ کر ہم سے فرمایا: تم کیا خیال کرتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے کہا: نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہوسکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5999]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں وضاحت ہے کہ اس عورت کا بچہ گم ہوچکا تھا،اس لیے جب بھی کوئی بچہ دیکھتی اسے چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی،آخر اسے اپنا بچہ مل گیا تو اسے چھاتی سے لگا کر بہت خوش ہوئی۔ اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ دودھ جمع ہونے سے اس کی چھاتی بوجھل ہوچکی تھی،جب بھی کوئی بچہ دیکھتی تو اپنی چھاتی کو ہلکا کرنے کے لیے اسے دودھ پلانا شروع کردیتی۔ (مسند احمد: 3/104، وفتح الباري: 530/10)(2) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا اور انھیں جہنم میں نہیں ڈالے گا، البتہ جو لوگ برے کام کر کے جہنم کے مستحق ہوں گے، انھیں ضرور جہنم کے حوالے کیا جائے گا، گویا وہ خود اپنے آپ کو دوزخ کے حوالے کرتے ہیں۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدیث میں لفظ "عباد" اگرچہ عام ہے لیکن اس سے مراد اہل ایمان ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے اور اسے میں نے ان لوگوں کے لیے مقدر کیا ہے جو تقویٰ شعار اور پرہیز گار ہیںَ" (الأعراف7: 156) بہرحال انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے ہر وقت کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ (فتح الباري: 530/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5999