حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا غندر ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي بردة ، قال: سمعت الاغر ، وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ايها الناس توبوا إلى الله، فإني اتوب في اليوم إليه مائة مرة "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَغَرَّ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ، فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ "،
غندر نے شعبہ سے، انہوں نے عمرہ بن مُرہ سے اور انہوں نے ابوبُردہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت اغر رضی اللہ عنہ سے سنا۔۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے۔۔ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگو! اللہ کی طرف توبہ کیا کرو کیونکہ میں اللہ سے۔۔ ایک دن میں۔۔ سو بار توبہ کرتا ہوں۔"
حضرت اغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ہیں،نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے لوگو! اللہ کی طرف لوٹو،اس کے حضور میں توبہ کرو،کیونکہ میں بھی دن میں سوسومرتبہ اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6859
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: استغفار کا معنی ہے، معافی مانگنا اور بخشش طلب کرنا اور توبہ کا معنی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا، اس کی طرف لوٹ آنا اور اس صحیح راہ کو اختیار کر لینا، جس کی طرف اللہ تعالیٰ کی راہنمائی فرمائی ہے، اگر آدمی جرم و گناہ سے باز نہ آئے اور صحیح روش اختیار نہ کرے تو زبان سے لاکھ دفعہ توبہ، میری توبہ کہے، یہ توبہ نہیں مذاق ہو گا، اس لیے استغفار اور توبہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور توبہ کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ جو گناہ اور نافرمانی یا ناپسندیدہ عمل، انسان سے سرزد ہوا ہے، اس سے فورا باز آ جائے، اس کے برے انجام کے خوف کے ساتھ اس پر اپنے دلی رنج اور ندامت و پشیمانی کا اظہار کرے اور آئندہ کے لیے اس سے بچے رہنے اور دور رہنے کا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کا عزم پیدا کرے اور جو گناہ ہو گیا ہے، اس کا تدارک اور تلافی کرے اور اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو وہ اگر مال سے تعلق رکھتا ہے تو اس کو واپس کرے، یا اس سے معاف کروائے، لیکن یہ خیال رہے کہ توبہ و استغفار صرف عاصیوں اور گناہ گاروں کے لیے مغفرت اور رحمت کا ذریعہ ہے تو مقرب انبیاء کے لیے درجات قرب و محبوبیت میں ترقی کا وسیلہ ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ استغفراللہ کہتے تھے، حالانکہ نماز ایک بلند ترین عبادت ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا (سورة التحريم: 8) "اے ایمان دار لوگو! اللہ کی طرف مخلصانہ رجوع کرو دل کے پورے انقیاد اور سچے عزم کے ساتھ لوٹو، جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنے کی خواہش باقی نہ رہے۔ "
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6859
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1515
´توبہ و استغفار کا بیان۔` اغر مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دل پر غفلت کا پردہ آ جاتا ہے، حالانکہ میں اپنے پروردگار سے ہر روز سو بار استغفار کرتا ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1515]
1515. اردو حاشیہ: رسول اللہ ﷺ فداہ أمي و أبي۔ کے شب وروز اللہ کی اطاعت میں گُزرتے تھے۔ اور ان میں کوئی لمحہ غفلت کا نہ ہوتا تھا۔ نیز آپ ﷺ دل مبارک ان عوارض سے پاک صاف اور بالا تر تھا۔ جو عام انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ اور اس کے باوجود آپﷺکا یہ فرمانا کہ میرے دل پر پردہ سا آجاتا ہے۔ اس کی تفصیل ہمارے لئے مشکل ہے۔ اس لئے امام لغت اصمعی نے کہا ہے کہ اگر غیر نبی کے دل کی بات ہوتی۔ تو میں اس پر بات کرتا۔ علامہ سندھی بھی تفویض کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ بطورافہام تفہیم کے بات اس قدر ہے۔ کہ آپ کی حالت اس طرح کی ہوجاتی تھی۔ کہ آپ اس پر استغفار فرماتے۔ [عون المعبود) جب رسول اللہ ﷺ رسول ہوتے ہوئے بھی استغفار فرماتے تھے تو عام انسانوں کی حالت کیا ہونی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1515
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6858
حضرت اغر مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہیں شرف صحبت حاصل ہے،بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"واقعہ یہ ہے،میرے دل پر کبھی،ابر(پردہ) چھا جاتا ہے،چنانچہ میں دن بھر میں اللہ سے سومرتبہ مغفرت مانگتا ہوں۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6858]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ليغان: یہ غين سے ماخوذ ہے، جس کا معنی غيم (بادل) ہے، یعنی پردہ چھا جانا۔ فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا ظہور ہوتا رہتا تھا، اس لیے آپ ہر وقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتے تھے، لیکن آپ انسان اور بشر تھے اور حوائج بشریہ میں بھی مشغول ہوتے تھے، کبھی امت کے امور و معاملات کے حل کرنے میں مصروف ہو جاتے اور ان کے تنازعات اور جھگڑوں کو نپٹاتے، کبھی دشمن کے مقابلہ کے لیے اور ان سے معاملات طے کرنے کے لیے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت فرماتے، ان اوقات میں ذکر الٰہی کی پہلی کیفیت میں فرق آ جاتا تھا، آپ نے اس کو اپنے مقام رفیع کی بنا پر، غَين سے تعبیر کیا ہے، اس کو بعض نے حسنات الابرار، سيأت المقربين کا نام دیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کے جلال و جبروت کا، جس درجہ کا انسان کو شعور و احساس ہو گا، وہ اس درجہ کے مطابق اپنے آپ کو حقوق عبودیت کی ادائیگی میں قصوروار سمجھے گا اور ہر وقت اسے یہ احساس رہے گا، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ اللہ کی معرفت بدرجہ کمال حاصل تھی، اس لیے آپ پر یہ احساس غالب رہتا تھا کہ عبودیت کا حق ادا نہ ہو سکا، اس کو آپ نے غَين سے تعبیر فرمایا اور اس واسطے آپ بار بار، مختلف مجالس اور مواقع پر توبہ و استغفار فرماتے رہتے اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے اور ان کے لیے عملی طور پر اپنا اسوہ بھی پیش فرماتے۔