حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو الزبير ، عن جابر ، قال: اقتتل غلامان غلام من المهاجرين، وغلام من الانصار، فنادى المهاجر او المهاجرون: يا للمهاجرين، ونادى الانصاري: يا للانصار، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما هذا دعوى اهل الجاهلية؟ قالوا: لا يا رسول الله، إلا ان غلامين اقتتلا فكسع احدهما الآخر، قال: " فلا باس ولينصر الرجل اخاه ظالما او مظلوما، إن كان ظالما فلينهه فإنه له نصر، وإن كان مظلوما فلينصره ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: اقْتَتَلَ غُلَامَانِ غُلَامٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، وَغُلَامٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَنَادَى الْمُهَاجِرُ أَوْ الْمُهَاجِرُونَ: يَا لَلْمُهَاجِرِينَ، وَنَادَى الْأَنْصَارِيُّ: يَا لَلْأَنْصَارِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا هَذَا دَعْوَى أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا أَنَّ غُلَامَيْنِ اقْتَتَلَا فَكَسَعَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، قَالَ: " فَلَا بَأْسَ وَلْيَنْصُرِ الرَّجُلُ أَخَاهُ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، إِنْ كَانَ ظَالِمًا فَلْيَنْهَهُ فَإِنَّهُ لَهُ نَصْرٌ، وَإِنْ كَانَ مَظْلُومًا فَلْيَنْصُرْهُ ".
ابوزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا: دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے، ایک لڑکا مہاجرین میں سے تھا اور دوسرا لڑکا انصار میں سے۔ مہاجر نے پکار کر آواز دی: اے مہاجرین! اور انصاری نے پکار کر آواز دی: اے انصار! تو (اچانک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور فرمایا: "یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی چیخ و پکار ہے؟" انہوں نے عرض کی: نہیں، اللہ کے رسول! بس یہ دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے ہیں اور ایک نے دوسرے کی سرین پر ضرب لگائی ہے، آپ نے فرمایا: "کوئی (بڑی) بات نہیں، اور ہر انسان کو اپنے بھائی کی، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، مدد کرنی چاہئے، اگر اس کا بھائی ظالم ہو تو اسے (ظلم سے) روکے، یہی اس کی مدد ہے، اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو غلام آپس میں لڑ پڑے، ایک غلام مہاجروں اور دوسرا انصار کا مہاجر غلام یا مہاجروں نے آواز بلند کی، اے مہاجرو!مدد کرو اور انصاری نے پکارا، اے انصار یو!مدد کرو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے)نکلے اور فرمایا:"یہ جاہلانہ پکارکیسی ہے؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا:کچھ نہیں۔اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !صرف اتنی بات ہے دو غلام لڑ پڑے(کیونکہ) ایک نے دوسرے کی سرین پر لات ماری آپ نے فرمایا:" کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے، انسان کو اپنے بھائی کی مدد کرنا چاہیے،ظالم ہو یا مظلوم، اگر وہ ظلم کر رہا ہے تو اسے روکے، کیونکہ یہی اس کی نصرت ہے اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6582
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: كسع: سرین پر لات مارنا یا چٹکی لینا۔ فوائد ومسائل: غزوہ مریسیع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام جہجاہ بن قیس غفاری نے جن کی طبیعت میں خوش طبعی تھی، سنان بن وبرہ جہنی، جو انصار کے حلیف تھے، کی سرین پر ہنسی میں لات مار دی، اس نے اس کو بہت برا اور معیوب کہا اور مدد کے لیے انصار کو پکارا، جواب میں حضرت عمر کے غلام نے مہاجرین کو آواز دی تو اس طرح قبائل کی بنیاد پر آواز دینا جاہلیت کے دور کا طریقہ تھا، جس میں حق و صداقت کی بجائے، اپنے اپنے خاندان کے فرد کی حمایت کی جاتی تھی۔ اس لیے آپ نے فرمایا یہ جاہلیت کے دور کی پکار کیسی ہے؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا، اس پکار سے زیادہ لوگ متاثر نہیں ہوئے اور عصبیت کے جذبہ نے سر نہیں اٹھایا، اس لیے کچھ اثر نہیں ہوا تو آپ نے فرمایا تو چلو کوئی خطرہ اور خوف کی بات نہیں ہے، کیونکہ تم اس سے متاثر نہیں ہوئے، بھائی کی مدد ضرور کرو، لیکن ظالم بھائی کی مدد یہی ہے کہ اس کو شریعت کی مخالفت سے روکو، غلط کام سے باز رکھو تاکہ وہ اللہ کے مواخذہ سے بچ جائے، اسی طرح آپ نے جاہلیت کے اس مقولہ کو تو برقرار رکھا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم، لیکن اس کا مفہوم بدل دیا اور عصبیت کو ختم کر ڈالا۔