صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
2. باب تَقْدِيمِ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
2. باب: نفل نماز پر والدین کی اطاعت مقدم ہے۔
Chapter: Being Dutiful To One's Parents Takes Precedence Over Voluntary Prayer, Etc.
حدیث نمبر: 6508
Save to word اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة ، انه قال: " كان جريج يتعبد في صومعة، فجاءت امه، قال حميد: فوصف لنا ابو رافع صفة ابي هريرة، لصفة رسول الله صلى الله عليه وسلم امه حين دعته كيف جعلت كفها فوق حاجبها، ثم رفعت راسها إليه تدعوه، فقالت يا جريج: انا امك كلمني، فصادفته يصلي، فقال: اللهم امي وصلاتي، فاختار صلاته، فرجعت، ثم عادت في الثانية، فقالت يا جريج: انا امك فكلمني، قال: اللهم امي وصلاتي، فاختار صلاته، فقالت: اللهم إن هذا جريج وهو ابني وإني كلمته، فابى ان يكلمني اللهم فلا تمته حتى تريه المومسات، قال: ولو دعت عليه ان يفتن لفتن، قال: وكان راعي ضان ياوي إلى ديره، قال: فخرجت امراة من القرية فوقع عليها الراعي، فحملت فولدت غلاما، فقيل لها: ما هذا؟ قالت: من صاحب هذا الدير، قال: فجاءوا بفؤوسهم ومساحيهم فنادوه فصادفوه يصلي، فلم يكلمهم، قال: فاخذوا يهدمون ديره، فلما راى ذلك نزل إليهم، فقالوا له: سل هذه، قال: فتبسم ثم مسح راس الصبي، فقال: من ابوك؟ قال: ابي راعي الضان، فلما سمعوا ذلك منه، قالوا: نبني ما هدمنا من ديرك بالذهب والفضة، قال: لا، ولكن اعيدوه ترابا كما كان ثم علاه ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ جُرَيْجٌ يَتَعَبَّدُ فِي صَوْمَعَةٍ، فَجَاءَتْ أُمُّهُ، قَالَ حُمَيْدٌ: فَوَصَفَ لَنَا أَبُو رَافِعٍ صِفَةَ أَبِي هُرَيْرَةَ، لِصِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّهُ حِينَ دَعَتْهُ كَيْفَ جَعَلَتْ كَفَّهَا فَوْقَ حَاجِبِهَا، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا إِلَيْهِ تَدْعُوهُ، فَقَالَتْ يَا جُرَيْجُ: أَنَا أُمُّكَ كَلِّمْنِي، فَصَادَفَتْهُ يُصَلِّي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ، فَرَجَعَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فِي الثَّانِيَةِ، فَقَالَتْ يَا جُرَيْجُ: أَنَا أُمُّكَ فَكَلِّمْنِي، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا جُرَيْجٌ وَهُوَ ابْنِي وَإِنِّي كَلَّمْتُهُ، فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي اللَّهُمَّ فَلَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ الْمُومِسَاتِ، قَالَ: وَلَوْ دَعَتْ عَلَيْهِ أَنْ يُفْتَنَ لَفُتِنَ، قَالَ: وَكَانَ رَاعِي ضَأْنٍ يَأْوِي إِلَى دَيْرِهِ، قَالَ: فَخَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْقَرْيَةِ فَوَقَعَ عَلَيْهَا الرَّاعِي، فَحَمَلَتْ فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقِيلَ لَهَا: مَا هَذَا؟ قَالَتْ: مِنْ صَاحِبِ هَذَا الدَّيْرِ، قَالَ: فَجَاءُوا بِفُؤُوسِهِمْ وَمَسَاحِيهِمْ فَنَادَوْهُ فَصَادَفُوهُ يُصَلِّي، فَلَمْ يُكَلِّمْهُمْ، قَالَ: فَأَخَذُوا يَهْدِمُونَ دَيْرَهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ نَزَلَ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا لَهُ: سَلْ هَذِهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَ الصَّبِيِّ، فَقَالَ: مَنْ أَبُوكَ؟ قَالَ: أَبِي رَاعِي الضَّأْنِ، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْهُ، قَالُوا: نَبْنِي مَا هَدَمْنَا مِنْ دَيْرِكَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَعِيدُوهُ تُرَابًا كَمَا كَانَ ثُمَّ عَلَاهُ ".
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے ابورافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جریج نوکیلی چھت والی چھوٹی سی عبادت گاہ میں عبادت کر رہا تھا کہ اس کی ماں آئی۔ حمید نے کہا: ابو رافع نے ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح واضح کر کے دکھایا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے واضح کیا تھا کہ جب اس کی ماں نے اسے بلایا تو اس نے کس طرح اپنا ہاتھ اپنے ابروؤں پر رکھا تھا اور پھر اسے بلانے کے لیے اپنا سر اوپر کی طرف کیا تھا تو آواز دی: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کر۔ ماں نے عین اسی وقت ان (جریج) کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا: میرے اللہ! (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے؟ تو اس نے اپنی نماز کو ترجیح دی۔ وہ واپس چلی گئیں، پھر دوسری بار آئیں اور بلایا: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کرو۔ اس نے کہا: اے اللہ! میری ماں اور میری نماز ہے، انہوں نے نماز کو ترجیح دی، تو ماں نے دعا کی: اے اللہ! یہ جریج ہے، یہ میرا بیٹا ہے، میں نے اس سے بات کی ہے، اس نے میرے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یا اللہ! تو اسے بدکار عورتوں کا منہ دکھانے سے پہلے موت نہ دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ اس کو یہ بددعا دیتیں کہ وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو وہ ہو جاتا۔ فرمایا: بھیڑوں کا ایک چرواہا (بھی) اس کی عبادت گاہ کی پناہ لیا کرتا تھا (اس کے سائے میں آ بیٹھتا تھا۔) فرمایا: بستی سے ایک عورت نکلی، چرواہے نے اس کے ساتھ بدکاری کی، وہ حاملہ ہو گئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس عورت سے پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ اس عبادت گاہ والے شخص سے (ہوا) ہے۔ کہا: تو وہ (بستی والے) لوگ اپنے پھاؤڑے اور کدال لے کر آ گئے، انہوں نے جریج کو بلایا، انہوں نے اسی وقت ان کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے انہوں نے ان لوگوں سے یہ بات نہ کی۔ لوگوں نے ان کی عبادت گاہ گرانی شروع کر دی، جب انہوں نے یہ دیکھا تو اتر کر ان کی طرف آئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: اس عورت سے پوچھو (کیا معاملہ ہے)، فرمایا: تو وہ مسکرائے، بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا، پھر پوچھا: تمہارا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ جب انہوں نے اس (شیر خوار) سے یہ سنا تو کہنے لگے: ہم نے آپ کی عبادت گاہ کا جو حصہ گرایا ہے اسے سونے اور چاندی سے (دوبارہ) بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا؛ نہیں، لیکن اسی طرح مٹی سے بنا دو جس طرح پہلے تھی، پھر وہ اس کے اوپر (عبادت گاہ میں) چلے گئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،جریج اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتے تھے،چنانچہ اس کی ماں آئی،حمید کہتے ہیں،حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ماں کی جو کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی وہی کیفیت وصورت ابورافع نے ہمیں بتائی،اس کی ماں نے جب اسے بلایاتو کیسے اپنی ہتھیلی،اپنے ابرو پررکھی تھی،پھر اسے بلانے کے لیے،اس کی طرف اپناسر اٹھایا اورآوازدی،اے جریج!میں تیری ماں ہوں،مجھ سے گفتگو کروتو اس نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا،جریج نے دل میں کہا،اےاللہ!میری نماز اورمیری ماں(کس کو ترجیح دوں؟)پھر اس نے نماز کو ترجیح دی تو وہ واپس چلی گئی،پھر دوبارہ آئی اور آوازدی اےجریج!میں تیری ماں ہوں،مجھ سے ہم کلام ہو،اس نے دل میں کہا،اے اللہ!میری ماں اورمیری نماز تو اس نے نماز کاانتخاب کیا تو اس کی ماں نے کہا،اے اللہ!یہ جریج ہے اور یہ میرا بیٹا ہے اور میں نے اس سے ہم کلام ہونا چاہا ہے،سو اس نے مجھ سے گفتگو کرنے سے انکار کیاہے،اے اللہ!اس کو اس وقت تک نہ مارنا،جب تک تو اسے بدکار عورتوں کا نظارہ نہ کرادے،آپ نے فرمایا:"اگر وہ اس کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کی دعاکرتی تووہ فتنہ میں مبتلاکردیاجاتا۔آپ نےفرمایا،ایک دنبوں کاچرواہاتھا،جو اس کے دیرکے پاس ٹھہرتا تھا،چنانچہ ایک عورت بستی سے نکلی اورچرواہے نے اس سے بدکاری کی،جس سے اسے حمل ٹھہر گیا اور اس نے ایک بچہ جنا،اس سے پوچھاگیا،یہ کس کی حرکت ہے؟اس نے کہا،اس دیر والے کی تو لوگ اپنے کلہاڑے اورکسیاں لے کر آگئے اور اسے آواز دی تو انہوں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا،اس لیے اس نے ان کو جواب نہ دیا تو لوگ اس کا دیر یعنی عبادت خانہ گرانے لگے تو جب اس نے یہ صورت حال دیکھی،ان کے پاس اترآیا،لوگوں نے اسے کہا،اس عورت سے پوچھو!تو وہ مسکرایا،پھر بچے کے سرپر ہاتھ پھیرا اورپوچھا تیرا باپ کون ہے؟اس نے کہا،میرا باپ،دنبوں کا چرواہا ہے تو جب لوگوں نے بچے سے یہ سنا،کہنے لگے،ہم نے تیراجو معبد گرایاہے،ہم اسے سونے اورچاندی سے بنا دیتے ہیں،اس نے کہا،نہیں،لیکن اسے پہلے ہی کی طرح مٹی کا بنادو،پھر وہ اس میں چڑھ گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2550

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6508 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6508  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
صومعه:
مخروطی شکل کا چبارہ یا منارا۔
(2)
مومسات:
مفرد مومسة ہے،
بدکار اور زانیہ عورت،
فؤؤس،
فاس کی جمع ہے،
کدال مراد ہے،
جس سے زمین کھودی جاتی ہے۔
(3)
مساحي:
مسحاة کی جمع ہے،
جس آلہ سے زمین سے مٹی اکٹھی کی جاتی ہے،
پھاوڑا،
کسی۔
(4)
ابي راعي الضان:
میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے،
چونکہ وہ اس کے نطفہ سے پیدا ہوا تھا،
اس لیے اس کو باپ کا نام دیا گیا اور اس کا نام بابوس تھا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر انسان نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی والدہ کو اس کا علم نہ ہو سکے اور جواب نہ دینے کی صورت میں اس کی مامتا کو ٹھیس پہنچتی ہو،
یعنی جواب نہ دینا،
اس کے لیے اذیت اور ناگواری کا باعث ہو تو نماز توڑ کر اس کو جواب دینا چاہیے،
کیونکہ نماز اگر نفل ہے تو اس کو دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے،
اور اگر فرض ہے تو اس کی قضائی ممکن ہے اور پہلی امتوں میں تو نماز کے دوران ضروری گفتگو کرنا جائز تھا،
جیسا کہ اسلام میں بھی آغاز میں جائز رہا ہے،
اس لیے اسے جواب دینا چاہیے تھا،
اس نے تشدد اور انتہا پسندی سے کام لیا،
اس لیے ماں کی بددعا قبول ہو گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6508   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.