سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے ابورافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جریج نوکیلی چھت والی چھوٹی سی عبادت گاہ میں عبادت کر رہا تھا کہ اس کی ماں آئی۔ حمید نے کہا: ابو رافع نے ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح واضح کر کے دکھایا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے واضح کیا تھا کہ جب اس کی ماں نے اسے بلایا تو اس نے کس طرح اپنا ہاتھ اپنے ابروؤں پر رکھا تھا اور پھر اسے بلانے کے لیے اپنا سر اوپر کی طرف کیا تھا تو آواز دی: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کر۔ ماں نے عین اسی وقت ان (جریج) کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا: میرے اللہ! (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے؟ تو اس نے اپنی نماز کو ترجیح دی۔ وہ واپس چلی گئیں، پھر دوسری بار آئیں اور بلایا: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کرو۔ اس نے کہا: اے اللہ! میری ماں اور میری نماز ہے، انہوں نے نماز کو ترجیح دی، تو ماں نے دعا کی: اے اللہ! یہ جریج ہے، یہ میرا بیٹا ہے، میں نے اس سے بات کی ہے، اس نے میرے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یا اللہ! تو اسے بدکار عورتوں کا منہ دکھانے سے پہلے موت نہ دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ اس کو یہ بددعا دیتیں کہ وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو وہ ہو جاتا۔ فرمایا: بھیڑوں کا ایک چرواہا (بھی) اس کی عبادت گاہ کی پناہ لیا کرتا تھا (اس کے سائے میں آ بیٹھتا تھا۔) فرمایا: بستی سے ایک عورت نکلی، چرواہے نے اس کے ساتھ بدکاری کی، وہ حاملہ ہو گئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس عورت سے پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ اس عبادت گاہ والے شخص سے (ہوا) ہے۔ کہا: تو وہ (بستی والے) لوگ اپنے پھاؤڑے اور کدال لے کر آ گئے، انہوں نے جریج کو بلایا، انہوں نے اسی وقت ان کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے انہوں نے ان لوگوں سے یہ بات نہ کی۔ لوگوں نے ان کی عبادت گاہ گرانی شروع کر دی، جب انہوں نے یہ دیکھا تو اتر کر ان کی طرف آئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: اس عورت سے پوچھو (کیا معاملہ ہے)، فرمایا: تو وہ مسکرائے، بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا، پھر پوچھا: تمہارا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ جب انہوں نے اس (شیر خوار) سے یہ سنا تو کہنے لگے: ہم نے آپ کی عبادت گاہ کا جو حصہ گرایا ہے اسے سونے اور چاندی سے (دوبارہ) بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا؛ نہیں، لیکن اسی طرح مٹی سے بنا دو جس طرح پہلے تھی، پھر وہ اس کے اوپر (عبادت گاہ میں) چلے گئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،جریج اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتے تھے،چنانچہ اس کی ماں آئی،حمید کہتے ہیں،حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ماں کی جو کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی وہی کیفیت وصورت ابورافع نے ہمیں بتائی،اس کی ماں نے جب اسے بلایاتو کیسے اپنی ہتھیلی،اپنے ابرو پررکھی تھی،پھر اسے بلانے کے لیے،اس کی طرف اپناسر اٹھایا اورآوازدی،اے جریج!میں تیری ماں ہوں،مجھ سے گفتگو کروتو اس نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا،جریج نے دل میں کہا،اےاللہ!میری نماز اورمیری ماں(کس کو ترجیح دوں؟)پھر اس نے نماز کو ترجیح دی تو وہ واپس چلی گئی،پھر دوبارہ آئی اور آوازدی اےجریج!میں تیری ماں ہوں،مجھ سے ہم کلام ہو،اس نے دل میں کہا،اے اللہ!میری ماں اورمیری نماز تو اس نے نماز کاانتخاب کیا تو اس کی ماں نے کہا،اے اللہ!یہ جریج ہے اور یہ میرا بیٹا ہے اور میں نے اس سے ہم کلام ہونا چاہا ہے،سو اس نے مجھ سے گفتگو کرنے سے انکار کیاہے،اے اللہ!اس کو اس وقت تک نہ مارنا،جب تک تو اسے بدکار عورتوں کا نظارہ نہ کرادے،آپ نے فرمایا:"اگر وہ اس کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کی دعاکرتی تووہ فتنہ میں مبتلاکردیاجاتا۔آپ نےفرمایا،ایک دنبوں کاچرواہاتھا،جو اس کے دیرکے پاس ٹھہرتا تھا،چنانچہ ایک عورت بستی سے نکلی اورچرواہے نے اس سے بدکاری کی،جس سے اسے حمل ٹھہر گیا اور اس نے ایک بچہ جنا،اس سے پوچھاگیا،یہ کس کی حرکت ہے؟اس نے کہا،اس دیر والے کی تو لوگ اپنے کلہاڑے اورکسیاں لے کر آگئے اور اسے آواز دی تو انہوں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا،اس لیے اس نے ان کو جواب نہ دیا تو لوگ اس کا دیر یعنی عبادت خانہ گرانے لگے تو جب اس نے یہ صورت حال دیکھی،ان کے پاس اترآیا،لوگوں نے اسے کہا،اس عورت سے پوچھو!تو وہ مسکرایا،پھر بچے کے سرپر ہاتھ پھیرا اورپوچھا تیرا باپ کون ہے؟اس نے کہا،میرا باپ،دنبوں کا چرواہا ہے تو جب لوگوں نے بچے سے یہ سنا،کہنے لگے،ہم نے تیراجو معبد گرایاہے،ہم اسے سونے اورچاندی سے بنا دیتے ہیں،اس نے کہا،نہیں،لیکن اسے پہلے ہی کی طرح مٹی کا بنادو،پھر وہ اس میں چڑھ گیا۔