حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك ، عن ابي اسيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير دور الانصار بنو النجار، ثم بنو عبد الاشهل، ثم بنو الحارث بن الخزرج، ثم بنو ساعدة، وفي كل دور الانصار خير "، فقال سعد: ما ارى رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قد فضل علينا، فقيل قد فضلكم على كثير.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ، وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ "، فَقَالَ سَعْدٌ: مَا أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَدْ فَضَّلَ عَلَيْنَا، فَقِيلَ قَدْ فَضَّلَكُمْ عَلَى كَثِيرٍ.
محمد بن جعفر نے کہا: شعبہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے۔انھوں نے حضرت ابو اُسید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:: ""انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجا ر ہیں پھر بنو عبدالاشہل ہیں، پھر بنو حارث بن خزرج ہیں پھر بنوساعدہ ہیں اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیرہے۔"حضرت سعد (بن عبادہ) رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اور لوگوں کو) ہم پر فضیلت دی ہے تو ان سے کہاگیا۔آپ کو بھی بہت لو گوں پر فضیلت دی ہے۔
حضرت ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجا ر ہیں پھر بنو عبدالاشہل ہیں،پھر بنو حارث بن خزرج ہیں پھر بنوساعدہ ہیں اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیرہے۔"حضرت سعد (بن عبادہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اور لوگوں کو) ہم پر فضیلت دی ہے تو ان سے کہاگیا۔آپ کو بھی بہت لو گوں پر فضیلت دی ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6421
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اسلام کے معیار کے مطابق فضیلت و برتری کا دارومدار، دین کو پہلے اختیار کرنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کی نصرت و حمایت پر ہے، جیسا کہ فرمان باری ہے، "تم میں سے اللہ کے ہاں سب سے معزز اور محترم وہ ہے، جو اس کی حدود و احکام کا سب سے زیادہ پابند ہے۔ " سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13۔ اور آپ نے بنو ساعدہ جس کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے، کو چوتھے مرتبہ پر رکھا، حالانکہ انصاری قبائل اور بھی بہت سے ہیں، اس لیے انہیں جواب دیا گیا، تمہیں بہت سارے قبائل پر ترجیح دی گئی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6421
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3801
3801. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”انصار میرے معدے اور زنبیل کے درجے میں ہیں۔ عنقریب لوگ بہت ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، لہذا ان کی خوبیوں کو قبول کرنا اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرنا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3801]
حدیث حاشیہ: یہاں تک حضرت امام نے انصار کے فضائل بیان فرمائے اور آیات واحادیث کی روشنی میں واضح کرکے بتلایا کہ انصار کی محبت جزو ایمان ہے، اسلام پر ان لوگوں کے بہت سے احسانات ہیں، یہ وہ خوش نصیب مسلمان ہیں جن لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی مدینہ میں میزبانی کا شرف حاصل کیا اور یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے جوعہد وفا باندھا تھا اسے پورا کردکھایا، پس ان کے لیے دعائے خیر کرنا قیامت تک ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، جولوگ انصاری کہلاتے ہیں جو عام طور پر کپڑا بننے کا بہترین کاروبار کرتے ہیں، جہاں تک ان کے نسب ناموں کا تعلق ہے، یہ فی الحقیقت انصار نبویہ ہی کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، الحمد للہ آج بھی یہ حضرات نصرت اسلام میں بہت آگے آگے نظر آتے ہیں، کثر اللہ سواده آمین۔ اب آگے ان کے بعض افراد خصوصی کے مناقب شروع ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3801
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3799
3799. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عباس ؓ کا گزر انصار کی مجلس سے ہوا جبکہ وہ رو رہے تھے۔ ان دونوں حضرات نے رونے کی وجہ پوچھی تو انصار کہنے لگے: ہمیں نبی ﷺ کا اپنے پاس بیٹھنا یاد آ رہا ہے۔ (آپ بیمار تھے) یہ سن کر وہ نبی ﷺ کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی۔ پھر نبی ﷺ باہر تشریف لائے جبکہ چادر کے کنارے سے اپنا سر مبارک باندھا ہوا تھا۔ پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے۔ یہ آخری مرتبہ آپ کا منبر پر جلوہ افروز ہونا تھا۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ”لوگو! میں تمہیں انصار کی بابت وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ میری جان اور جگر ہیں۔ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے، البتہ ان کا حق باقی رہ گیا ہے، لہذا تم ان کے نیکوکار کی نیکی قبول کرو اور ان کے خطا کار سے درگزر کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3799]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ نے انصار کو کرش اور علیہ قراردیا ہے۔ کرش معدے کو کہتے ہیں جو غذا کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جس کے باعث حیوان نشو ونما پاتا ہے اور علیہ وہ صندوقچی ہے جس میں انسان نفیس اور عمدہ چیز بطور حفاظت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو اپنے قابل اعتماد رازدان اور صاحب امانت قراردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو جگہ دینا اور آپ کی بھر پور مدد کرنا انصار کی ذمہ داری تھی جو انھوں نے پوری کردی ہے ان کے ذمے جو نصرت اسلام کا فریضہ تھا وہ بھی انھوں نے انجام دے دیا ہے۔ اب تمھاری باری ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ انھیں کسی قسم کی اذیت سے دو چار نہ کرو۔ ان میں سے جو نیکو کار ہیں ان کی اچھی باتیں قبول کرو اور جو خطا کار ہیں ان کی خطاؤں سے درگزر کرو۔ یہی اب ان کے حقوق کی ادائیگی ہے جو تم نے پوری کرنی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3799
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3801
3801. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”انصار میرے معدے اور زنبیل کے درجے میں ہیں۔ عنقریب لوگ بہت ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، لہذا ان کی خوبیوں کو قبول کرنا اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرنا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3801]
حدیث حاشیہ: 1۔ انصار نے رسول اللہ ﷺ کو رہنے کے لیے جگہ دی اور اسلام کی مدد کی۔ ان کا یہ وقت گزرچکا ہے کوئی دوسرا اس سعادت میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے اور نہ کوئی ان سے سبقت کر سکتا ہے۔ ان میں سے جو بھی فوت ہو گا اس کی جگہ کبھی پر نہ ہوگی لہٰذا وہ کم ہوتے رہیں گے اور دوسرے لوگ زیادہ ہوتے جائیں گے حتی کہ انصار کھانے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے۔ ان کے مقابلے میں مہاجرین حکمران ہوں گے انھیں آپ نے وصیت فرمائی کہ انصار سے احسان کرتے رہنا اور انھیں تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ انصار کو کبھی حکومت نہیں ملے گی لیکن یہ موقف واضح نہیں ہے۔ 2۔ واقعہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ انصار دن بدن کم ہو رہے ہیں اگرچہ اس کا دعوی کرنے والے بہت ہیں لیکن دعوی کرنے والوں کے پاس انصار ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ المستعان۔ نوٹ: ۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ذریعے سے انصار کے مجموعی کردار کو نمایاں کیا ہے اس سے یہ انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ انصار نے کسی طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجرین بھائیوں کا احترام کیا اور کس قدر محبت خلوص ایثار اور قربانی سے کام لیا۔ نیز مہاجرین بھی اس نوازش و اکرام کی کتنی قدر کرتے تھے چنانچہ انھوں نے بھی انصار کی پیش کش سے کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتے تھے۔ واقعی رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ سلسلہ مؤاخات سے دور جاہلیت کے جانبدار نہ رویے رنگ و نسل اور وطن کے امتیازات مٹ گئے بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقوی کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھا۔ واقعی یہ بھائی چارہ رسول اللہ ﷺ کی ایک نادر حکمت عملی حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل تھا۔ اس سلسلے میں انصار کا تعاون ایک ایسی مثال ہے جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پاکیزہ ہستیوں کو اپنے ہاں بلند مقام عطا فرمائے اور قیامت کے دن ہمیں ان کی رفاقت نصیب کرے۔ آمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3801