الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1949
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے حتیٰ کہ جب ہم ذات الرقاع نامی پہاڑ تک پہنچے۔ ہماری عادت تھی کہ جب ہم کسی سایہ دار جگہ پر پہنچتے تو اسے رسول اللہ کے لیے چھوڑ دیتے، ایک مشرک آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت پر لٹکائی گئی تھی، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پکڑ لی، اسے میان سے نکال لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1949]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث میں غورث بن حارث نامی مشرک کا واقعہ انتہائی اختصار سے بیان کیا گیا ہے،
پورا واقعہ اس طرح ہے کہ جب آپﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ مجھے بچائے گا۔
تو تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور بقول ابن اسحاق جبریل علیہ السلام نے اس کو دھکا دیا تو تلوار گر گئی آپﷺ نے تلوار پکڑ کر اسے پوچھا اور فرمایا:
اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا،
آپﷺ اچھے پکڑنے والے بنئیے،
کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں بچا سکتا آپ نے فرمایا:
تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا میں عہد کرتا ہوں کہ میں آپﷺ سے لڑائی نہیں لڑوں گا اور نہ آپﷺ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔
اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی ساتھی پہنچے انھوں نے دیکھا کہ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس بیٹھا ہے،
آپ نے ساتھیوں کو واقعہ سے آگاہ فرمایا،
اس کے بعد اسے چھوڑ دیا،
اس نے واپس جا کر اپنی قوم کو اس واقعہ سے آگاہ کیا اور آپ کی تعریف کی،
بعد میں وہ مسلمان ہو گیا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے ہر گروہ کو الگ الگ دو رکعت نماز پڑھائی اس طرح آپ کا دوسرا دوگانہ نفل تھا لیکن دوسرے گروہ کا فرض تھا تو معلوم ہوا نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
(3)
مصنف نے نماز کی جتنی صورتیں بیان کی ہیں موقع محل کے مطابق سب صورتیں جائز ہیں جس طرح بھی ممکن ہو نماز پڑھی جائے گی اس کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث والے طریقہ کو پسند کیا ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کی حڈیث کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والے طریقہ کو یعنی حدیث نمبر 308 کو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1949
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2910
2910. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ واپس لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام ؓ بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤکیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سوگئے۔ اس دوران ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ وہ ہمیں پکار رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔“ اس نے مجھے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: ”اللہ۔“ اورآپ نے اسے کوئی سزا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2910]
حدیث حاشیہ:
ابن اسحاق نے مغازی میں یوں روایت کیا ہے کہ کافروں نے اس گنوار سے جس کا نام دعثور تھا‘ یہ کہا کہ اس وقت محمد (ﷺ) اکیلے ہیں اور موقع اچھا ہے۔
چنانچہ وہ آپﷺ کی تلوار لے کر آپﷺ کے سرہانے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اب آپﷺ کو کون بچائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا میرا بچانے والا اللہ ہے۔
آپﷺ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ فوراً حضرت جبرائیل تشریف لائے اور اس گنوار کے سینے پر ایک گھونسا مارا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی‘ جو آپﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا کہ اب تجھ کو کون بچائے گا اس نے کہا کوئی نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2910
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2913
2913. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے ہا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک جہاد میں تھے۔ واپسی کے وقت ایک وادی میں قیلولے کا وقت ہوگیا جس میں بہت کانٹے دار درخت تھے۔ لوگ سایہ حاصل کرنے کے لیے درختوں کے جھنڈ میں پھیل گئے۔ خود نبی کریم ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے محو استراحت ہوئے اور اس کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا دی۔ آپ جب نیند سے بیدار ہوئے تو ایک شخص آپ کے پاس تھا جس کا آپ کو علم نہ ہوسکا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص نے میری تلوار نیام سے نکالی اور کہنے لگا: اب تجھے (مجھ سے) کون بچائے گا؟ میں نےکہا: اللہ، تو اس نے تلوار پھینک دی۔ اب وہ یہ بیٹھا ہے۔“ پھر آپ نے اسے کوئی سزا نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2913]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہ امر ثابت کرنے کے لئے لائے کہ فوجی لوگ دوپہر میں کہیں چلتے ہوئے جنگل میں قیلولہ کریں تو اپنی پسند کے مطابق سایہ دار درخت تلاش کرسکتے ہیں اور اپنے قائد سے آرام کرنے کے لئے الگ ہوسکتے ہیں اور یہ آداب جنگ کے منافی نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2913
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2910
2910. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ واپس لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام ؓ بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤکیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سوگئے۔ اس دوران ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ وہ ہمیں پکار رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔“ اس نے مجھے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: ”اللہ۔“ اورآپ نے اسے کوئی سزا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2910]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ پر تلوار سونتنے والے شخص کا نام غورث بن حارث تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4136)
2۔
امام بیہقی ؒ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جواب سن کر اس دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی رسول اللہ ﷺنے پکڑ کر فرمایا:
”اب مجھ سے تجھے کون بچائے گا۔
“ اس نے کہا:
مجھے آپ سے اچھے برتاؤ کی امید ہے۔
آپ نے فرمایا:
”اسلام قبول کرتا ہے؟“ اس نے کہا:
اسلام تو قبول نہیں کرتا البتہ آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ سے قتال نہیں کروں گا۔
اور نہ آپ سے قتال کرنے والوں کا ساتھ ہی دوں گا۔
تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔
اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
میں لوگوں میں سے بہتر شخص کے پاس آیا ہوں۔
(دلائل النبوة للبیهقي: 456/3)
3۔
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہتھیاروں سے غافل نہیں ہو نا چاہیے ہاں اگر حالات اتنے سنگین نہ ہوں تو مجاہد اپنا اسلحہ وغیرہ قریب رکھ کر خود آرام کر سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2910
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2913
2913. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے ہا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک جہاد میں تھے۔ واپسی کے وقت ایک وادی میں قیلولے کا وقت ہوگیا جس میں بہت کانٹے دار درخت تھے۔ لوگ سایہ حاصل کرنے کے لیے درختوں کے جھنڈ میں پھیل گئے۔ خود نبی کریم ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے محو استراحت ہوئے اور اس کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا دی۔ آپ جب نیند سے بیدار ہوئے تو ایک شخص آپ کے پاس تھا جس کا آپ کو علم نہ ہوسکا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص نے میری تلوار نیام سے نکالی اور کہنے لگا: اب تجھے (مجھ سے) کون بچائے گا؟ میں نےکہا: اللہ، تو اس نے تلوار پھینک دی۔ اب وہ یہ بیٹھا ہے۔“ پھر آپ نے اسے کوئی سزا نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2913]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس وقت آپ کی حفاظت کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔
اس واقعے کے بعد آپ نے اپنی حفاظت کے اقدامات فرمائے تو آیت نازل ہوئی۔
﴿وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ ”اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
“ (المائدة: 5/67)
اس کے بعد آپ نے حفاظتی اقدامات ختم کر دیے اور حفاظت الٰہیہ ہی پر بھروسہ کیا۔
2۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ فوجی لوگ دوپہر کے وقت کہیں چلتے ہوئے جنگل میں قیلولہ کرنا چاہیں تو اپنی پسند کے مطابق سایہ دار درخت تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے قائد سے آرام کے لیے الگ ہو سکتے ہیں اور یہ آداب جنگ کے منافی نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2913
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4139
4139. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ نجد میں شریک ہوئے۔ جب آپ کو دوپہر کی گرمی نے پا لیا تو آپ اس وقت بہت خاردار درختوں کی وادی میں تھے، چنانچہ آپ نے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے سائے کے لیے قیام کیا اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی۔ صحابہ ؓ بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آواز دی۔ ہم حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اعرابی جب میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اس دوران میں اس نے میری تلوار (مجھ پر) سونت لی۔ جب میں بیدار ہوا تو یہ میری ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا، کہنے لگے: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: ”اللہ۔“ پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی اور بیٹھ گیا ور دیکھ لو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4139]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت کے مطابق اس اعرابی نے تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ بچائےگا۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2910)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی خصوصی حفاظت فرمائی، بصورت دیگراعرابی کو باربار پوچھنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ رسول اللہ ﷺ ہتھیار کے بغیر اس کے سامنے بیٹھےہوئے تھے۔
لیکن جب اعرابی کو احساس ہوا کہ انھیں قتل کرنا میرے بس میں نہیں تو خود کو آپ کے حوالے کر دیا۔
(فتح الباري: 534/7)
2۔
یہ واقعہ غزوہ بنو مصطلق کے قریب قریب ہوا تھا اس مناسبت سے یہاں بیان کردیا گیا وگرنہ بنیادی طور پر اس کا غزوہ بنو مصطلق سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4139