سلیمان کے والد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے چوسر کھیلی تو گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے خون اور گو شت سے رنگ لیا۔"
حضرت سلیمان بن بریدہ، اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان نرد شیر کھیلتا ہے، گویا کہ وہ اپنا ہاتھ خنزیر کےگوشت اور اس کے خون میں ڈبوتا ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5896
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ایسے تمام کھیل جن میں ذہنی یا جسمانی ورزش نہیں ہے یا ان میں ورزش تو ہے، لیکن ان میں جوا اور قمار پایا جاتا ہے یا وقت کا ضیا ع ہے یا وہ فرائض سے غافل کرتے ہیں اور انسان کے ذہن پر ہر وقت کھیل ہی سوار رہتا ہے اور کسی چیز کا اسے دھیان ہی نہیں رہتا، یہ سب کھیل ناجائز ہیں، اگرچہ سب کی حرمت یکساں نہیں، جتنا حرمت شریعت کو پامال کیا جائے گا، اتناہی وہ قبیح اور ناپسندیدہ ہوگا، لیکن اگر وہ کھیل صحت افزاء ہے یا جنگی مہارت میں ممدومعاون ہے اور فرائض کی ادائیگی میں حائل نہیں ہے، جیسے دوڑ، گھڑ سواری، نیزہ بازی، اسلحہ کی ٹریننگ، رسہ کشی، کشتی وغیرہ جبکہ ان میں شرط یا جوا نہ پایا جائے تو یہ کھیل جائز ہوں گے، لیکن بیٹھ کر کھیلے جانے والے کھیل، جن میں وقت کا ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ درست نہیں ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5896
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4939
´چوسر کھیلنے کی ممانعت کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نردشیر (چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4939]
فوائد ومسائل: 1) ایسے کھیل جو وقت اور سرمائے کے ضیاع کا باعث ہوں قطعاََ ناجا ئز ہیں۔ کھیل کا اصل مقصد ذہنی راحت اور جسمانی ورزش ہوتا ہے۔ اگر جائز کھیلوں میں بھی وقت ضائع ہوتا ہو تو وہ ناجائز ہو جائیں گے۔
2) ان صحیح احادیث اور مذکورہ اصول کی رو سے کرکٹ جیسے کھیل کی قطعاَ کو ئی اجازت نہیں۔ اور شرعا یہ ناجائز کھیل ہے، کیونکہ اس کھیل میں جس طرح بے دردی سے بے شمار لوگوں کا وقت ضائع ہوتا اور کیا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور کھیل میں نہیں ملتی۔ مزید برآں کرکٹ جیسے کھیل میں نماز روزے کی کو ئی پر واہ ہوتی ہے نہ کسی اور دینی و دنیوی کام کا خیال۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیل بین الاقوامی سطح پر جوئے جیسی بد ترین لعنت اور کبیرہ گناہ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ قومی اور ملکی سطح پر اس کے نقصانات اور مضر اثرات بے پناہ ہیں اور اس کے مقابلے میں فائدہ کچھ بھی نہیں۔ ایسا کھیل کھیلنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تو دور کی بات ایک بندہ رحمان کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسے لغو اور بے فائدہ کام کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا، بلکہ وہاں سے شرافت سے گزر جاتا ہے۔ قرآن مقدس میں ارشادِ باری تعالی ہے: (وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا) رحمان کے بندے جب کسی لغو (دینی اور دنیوی اعتبار سے بے فائدہ) چیز سے گزرتے ہیں تو باعزت طور سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی خوبصور ت اور حساس شریعت اور ایسا پاکیزہ دین جس میں چوسر کھیلنے کی اجازت نہیں ہے، اس دینِ فطرت میں کرکٹ جیسے کھیل کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4939
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3763
´نرد (چوسر) کھیلنے کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبویا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3763]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نرد یا نرد شیر ایک کھیل ہے جس میں مختلف خانوں میں گوٹیں رکھ کر انہیں ایک خاص طریق سے حرکت دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے۔ جو سر اور شطرنج وغیرہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔
(2) نرد اور شطرنج وغیرہ میں عام طور پر شرط لگا کر کھیلا جاتا ہے، اور ہارنے والا جیتنے والے کو کوئی چیز یا نقد رقم ادا کرتا ہے، اس لیے یہ جوئے میں شامل ہے جو حرام ہے۔
(3) خنزیر ناپاک جانور ہے، ایک مسلمان اسے چھونا بھی گوارا نہیں کرتا چہ جائیکہ اس کا گوشت بنائے یا خون میں ہاتھ رنگے۔ جوئے سے تعلق رکھنے والے کھیل سے اتنی نفرت ہونی چاہیے۔
(4) شطرنج اور جوئے کے حرام ہونے کی یہ وجہ ہے کہ لوگ اس میں مشغول ہو کر وقت ضائع کرتے ہیں حتی کہ نماز کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ کسی دوسرے کھیل میں بھی اس انداز سے مگن ہونا منع ہے کہ عبادت، ذکر الہی اورحقوق العباد کی ادائیگی متاثر ہو۔
(5) بعض علماء نے بغیر شرط لگائے شطرنج کھیلنا جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ دوسرے فرائض کی ادائیگی پر اثر نہ پڑے لیکن اس سے پرہیز ہی بہتر ہے کیونکہ شروع میں اگر یہ احتیاط ملحو ظ بھی رکھی جائے تو عادت پڑ جانے پر اس کا خیال رکھنا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3763