زہیر بن حرب اور احمد بن عبد ہ دونوں نے ابن عیینہ سے، انھوں نے ابرا ہیم بن میسرہ سے انھوں نے عمرو بن شرید یا یعقوب بن عاصم سے، انھوں نے حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ سوار کیا، اس کے بعد اسی کے مانند حدیث بیان کی،
یہی روایت امام صاحب کو دو اور اساتذہ نے سنائی کہ شرید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سوار کر لیا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5886
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے اشعار کا سننا جائز ہے، کیونکہ امیہ بن ابی صلت ایک جاہلی شاعر ہے، جو کتب مقدسہ کی تلاوت کرتا تھا، بت پرستی سے بیزار تھا اور ایک نبی کی آمد کی خبر دیتا تھا، بلکہ خود نبوت کا امیدوار تھا، اس لیے توحید اور فکر آخرت پر مشتمل شعر کہتا تھا، اس لیے ایسے اشعار جو توحید، نعت رسول مقبول، مدح صحابی، دین اور اہل دین کے دفعاع، فکرت آخرت اور اخلاق حسنہ کی تعلیم، نیکی کی ترغیب اور برائی سے نفرت دلانے والے ہوں، ان کا سننا اور سنانا جائز ہے، لیکن فحش اور بے حیائی کی تعلیم دینے والے، دین اور اہل دین کی مذمت اور اخلاق باختہ اشعار سننا اور سنانا جائز نہیں ہے، اس طرح اپنے اوپر شعروشاعری کو سوار کر لینا کہ انسان فرائض کی پابندی، قرآن و سنت کے علم کی تحصیل اور یاد الٰہی سے ہی بیگانہ ہو جائے اور اسے آخرت کی فکر ہی نہ رہے تو یہ جائز نہیں ہے۔