33. باب: بیماری لگ جانا اور بدشگونی، ہامہ، صفر، اور نوء غول یہ سب لغو ہیں، اور بیمار کو تندرست کے پاس نہ رکھیں۔
Chapter: There Is No 'Adwa, No Tiyarah (Evil Omens), No Hamah. No Safar, No Nawa', And No Ghoul, And No Sick Camel Should Be Brought To A Healthy Camel
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة ، وتقاربا في اللفظ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، ان ابا سلمة بن عبد الرحمن بن عوف حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا عدوى "، ويحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يورد ممرض على مصح "، قال ابو سلمة: كان ابو هريرة يحدثهما كلتيهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صمت ابو هريرة بعد ذلك عن قوله: لا عدوى، واقام على ان لا يورد ممرض على مصح، قال: فقال الحارث بن ابي ذباب وهو ابن عم ابي هريرة: قد كنت اسمعك يا ابا هريرة تحدثنا مع هذا الحديث حديثا آخر قد سكت عنه، كنت تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا عدوى "، فابى ابو هريرة ان يعرف ذلك، وقال: " لا يورد ممرض على مصح "، فما رآه الحارث في ذلك حتى غضب ابو هريرة فرطن بالحبشية، فقال للحارث: اتدري ماذا قلت؟، قال: لا، قال ابو هريرة: قلت ابيت، قال ابو سلمة: ولعمري لقد كان ابو هريرة يحدثنا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا عدوى "، فلا ادري انسي ابو هريرة او نسخ احد القولين الآخروحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال: " لَا عَدْوَى "، وَيُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ "، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُهُمَا كِلْتَيْهِمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَمَتَ أَبُو هُرَيْرَةَ بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَوْلِهِ: لَا عَدْوَى، وَأَقَامَ عَلَى أَنْ لَا يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصح، قَالَ: فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي ذُبَابٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ: قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ تُحَدِّثُنَا مَعَ هَذَا الْحَدِيثِ حَدِيثًا آخَرَ قَدْ سَكَتَّ عَنْهُ، كُنْتَ تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا عَدْوَى "، فَأَبَى أَبُو هُرَيْرَةَ أَنْ يَعْرِفَ ذَلِكَ، وَقَالَ: " لَا يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ "، فَمَا رَآهُ الْحَارِثُ فِي ذَلِكَ حَتَّى غَضِبَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَطَنَ بِالْحَبَشِيَّةِ، فَقَالَ لِلْحَارِثِ: أَتَدْرِي مَاذَا قُلْتُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ أَبَيْتُ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَلَعَمْرِي لَقَدْ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا عَدْوَى "، فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَبُو هُرَيْرَة أَوْ نَسَخَ أَحَدُ الْقَوْلَيْنِ الْآخَرَ
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہ ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کسی سے کوئی مرض خود بخود نہیں چمٹتااور وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیمار اونٹوں والا صحت مند اونٹوں والے (چرواہے) کے پاس اونٹ نہ لے جا ئے۔"ابو سلمہ نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کرتے تھے، پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ "لاعدوی"والی حدیث بیان کرنے سے رک گئے اور "بیمار اونٹوں والا صحت مند اونٹوں والے کے پاس (اونٹ) نہ لا ئے۔"والی حدیث پر قائم رہے۔تو حارث بن ابی ذباب نے۔ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے چچا کے بیٹے تھے۔۔کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ!میں تم سے سنا کرتا تھا، تم اس کے ساتھ ایک اور حدیث بیان کرتے تھے جسے بیان کرنے سے اب تم خاموش ہو گئے۔ہو۔تم کہا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کسی سے مرض خود بخود نہیں چمٹتا "تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو پہناننے سے انکا ر کر دیا اور یہ حدیث بیان کی۔ "بیمار اونٹوں والا صحت مند اونٹوں والے کے پاس (اونٹ) نہ لا ئے۔"اس پر حارث نے اس معاملے میں ان کے ساتھ تکرار کی حتی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور حبشی زبان میں ان کو نہ سمجھ میں آنے والی کوئی بات کہی، پھر حارث سے کہا: تمھیں پتہ چلا ہے کہ میں نے تم سے کیا کہا ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: میں (اس سے) انکا ر کرتا ہوں۔ ابو سلمہ نے کہا: مجھے اپنی زند گی کی قسم!ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہمیں یہ حدیث سنایا کرتے تھے۔" لاعدوی (کسی سے خود بخود کوئی بیماری نہیں لگتی) مجھے معلوم نہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے ہیں یا ایک بات نے دوسری کو منسوخ کردیا ہے۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مرض متعدی نہیں“ اور یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیمار جانوروں والا اپنے جانور تندرست جانوروں کے پاس نہ لے جائے۔“ ابو سلمہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ، مذکورہ بالا دونوں حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، پھر بعد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ”لا عدوى“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5791
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لايورد ممرض علي مصح: ممرض، بیمار اونٹوں کا مالک۔ (2) مصح: تندرست اونٹوں والا، یہاں مفعول محذوف ہے، یعنی ابله: کہ بیماری اونٹوں والا اپنے اونٹ تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے۔ فوائد ومسائل: ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، جیسا کہ شروع میں ہم بیان کر چکے ہیں، اس لیے ناسخ و منسوخ کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور لا عدوی والی حدیث حضرت سائب بن یزید، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے، اس لیے حضرت ابو ہریرہ کا بھول جانا، اس حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا اور جمہور علماء کے نزدیک راوی اگر روایت بھول جائے تو اس کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور حضرت ابو ہریرہ کا ایک دو روایات کو بھول جانا، ان کے اس دعویٰ کے منافی نہیں ہے کہ میں اللہ کے رسول کی دعا کے نتیجہ میں کوئی حدیث نہیں بھولا، کیونکہ ان ہزاروں احادیث میں ایک دو روایات کا بھولنا کوئی تعجب انگیز نہیں ہے اور نہ یہ ان کے دعویٰ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جبکہ ان کو بعد میں یاد بھی آ گی تھیں کیونکہ انہوں نے اپنی ساری حدیثیں لکھوائی تھیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5791
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3541
´نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ جانے دیا جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3541]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: اس ممانعت میں یہ حکمت ہے۔ کہ اگر اللہ کے حکم سے تندرست اونٹوں کو بیماری لگ گئی تو مالک کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوسکتا ہے۔ کہ یہ بیماری بیمار اونٹوں کے ساتھ تندرست اونٹ چرانے یا انھیں ان کے ساتھ پانی پلانے سے لگی ہے لہٰذا ایمان کی حفاظت کے لئے ایسا کام ہی نہ کیاجائے جس سے صحیح عقیدے کے منافی وسوسے پیدا ہونے کاخطر ہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3541