ابو عوانہ اور عبد العزیز بن محمد دونوں نے سہیل سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو"اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے"جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے کھڑا ہو۔پھر اس جگہ لوٹ آئے تو وہی اس (جگہ) کا زیادہ حقدارہے۔۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اٹھے۔“ ابو عوانہ کی روایت میں ہے ”جو اپنی مجلس سے اٹھا، پھر اس کی طرف واپس لوٹ آیا تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5689
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، اگر کوئی انسان کسی جگہ بیٹھا ہے، پھر وہ کسی عارضی طبعی یا انسانی ضرورت کے لیے واپسی کی نیت سے اٹھ کر جاتا ہے اور جلد ہی واپس آ جاتا ہے تو وہی اپنی جگہ کا حقدار ہے، وہ اپنی جگہ پر بیٹھنے والے کو اٹھا سکتا ہے، بہتر یہ ہے کہ وہ ایسی صورت میں اپنی جگہ کوئی چیز رکھ کر جائے، تاکہ دوسروں کو پتہ چل جائے کہ اس کی جگہ کوئی بیٹھا ہوا ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے، کوئی انسان مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر، اپنی جگہ تسبیح یا کپڑا یا مسواک وغیرہ رکھ کر چلا جائے اور پھر عشاء کے وقت آ کر اس جگہ پر بیٹھنے کا تقاضا کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5689
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4853
´دوبارہ مجلس میں آنے والا آدمی اپنی جگہ کا زیادہ مستحق ہے۔` سہیل بن ابی صالح کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان کے پاس ایک لڑکا تھا، وہ اٹھ کر گیا پھر واپس آیا، تو میرے والد نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب آدمی ایک جگہ سے اٹھ کر جائے پھر وہاں لوٹ کر آئے تو وہی اس (اس جگہ بیٹھنے) کا زیادہ مستحق ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4853]
فوائد ومسائل: یہ حکم علمی اور خاص حلقات کا معلوم ہوتا ہے، جہاں لوگ اہتمام سے باقاعدہ بیٹھتے ہیں۔ عام اجتماعات میں اگر کوئی جاکر واپس آنا چاہتا ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنی جگہ پر کوئی علامت چھوڑ جائے۔ جیسا کہ درج ذیل روایت میں آرہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4853