الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3114
3114. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم انصار میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اپنے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کیا۔ شعبہ کی ایک روایت میں ہے کہ انصاری نے کہا: میں اسے اپنی گردن پر اٹھا کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ سلیمان کی روایت میں ہے کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے بچے کا نام محمد رکھنا چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام تو رکھ سکتے ہو لیکن تمھیں میری کنیت کے ساتھ کنیت رکھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ مجھے قاسم بنایا گیا ہے۔ میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔“ حصین کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”میں قاسم کی حیثیت سے مبعوث ہوا ہوں، میں تم میں تقسیم کرتا ہوں۔“ عمرو نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر ؓسے بیان کیا کہ اس نے اس (بچے) کا نام قاسم رکھنے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھ سکتے ہو لیکن میری کنیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3114]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺابوالقاسم اس لیے تھے کہ آپ لوگوں میں مال ومتاع تقسیم کرنے والے تھے اگرچہ آپ کے صاحبزادے کا نام بھی قاسم تھا لیکن آپ نے اس وجہ سے کنیت ذکر نہیں فرمائی۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاری کو بچے کا نام قاسم رکھنے سے منع کیا گیا،حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا نام قاسم نہیں بلکہ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی، اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی بچے کا نام قاسم رکھاجائے گا تو اس کا والد ابو القاسم ہوگا۔
اس بنا پر باپ کی کنیت رسول اللہ ﷺ کی کنیت جیسی ہوگی، ایسا التباس اور اشتباہ سے بچنے کے لیے تھا۔
3۔
یاد رہے کہ نام یا کنیت رکھنے کی ممانعت رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔
اب کسی قسم کے اشتباہ یا التباس کا اندیشہ نہیں ہے، لہذا دونوں جائز ہیں۔
4۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف خمس کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ آپ اسے تقسیم کرنے والے ہیں، مالک نہیں ہیں۔
امام بخاری ؒنے اپنے مدعا پر اس طرح دلیل قائم کی ہے کہ آپ نے اپنانام قاسم رکھا ہے۔
دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3114
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3115
3115. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم انصار میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ اس پر انصار نے کہا: ہم تجھے ابو القاسم ہر گز نہیں کہیں گے اور نہ اس کنیت سے تمہاری آنکھ ہی ٹھنڈی کریں گے۔ یہ سن کر وہ شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام قاسم رکھا ہے، اب انصار کہتے ہیں کہ ہم تجھے نہ تو ابو القاسم کہیں گے اور نہ ہی تیری آنکھ ٹھنڈی کریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کردار ادا کیا ہے۔ میرے نام پر نام تو رکھ لو مگر میری کنیت مت اختیار کرو کیونکہ قاسم تو میں ہی ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3115]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒنے مذکورہ روایت لا کر اس امر کو تقویت دی ہے کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا تاکہ لوگ اسے ابو القاسم کی کنیت سے یاد کریں مگر انصارنے اس کی مخالفت کی تو رسول اللھ ﷺ نے اس کردار کی تحسین فرمائی۔
بعض روایات میں ہے کہ انصاری نے اپنے بچے کا نام محمد رکھنا چاہا تھا، لیکن یہ روایت مرجوح ہے۔
بہرحال یہ ممانعت صرف رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔
2۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ خمس میں رسول اللہ ﷺ اپنے حصے کے مالک تھے یا آپ صرف تقسیم کرنے والے تھے؟ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے مالک نہیں بلکہ اس کی تقسیم آپ کے ذمے ہوتی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3115