صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
The Book of The Obligations of Khumus
7. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} :
7. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو، بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تقسیم کریں گے۔
(7) Chapter. The Statement of Allah: “Verily one-fifth (1/5th) of it is assigned to Allah and to the Messenger (p.b.u.h)..." (V.8:41).
حدیث نمبر: 3115
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن سالم بن ابي الجعد، عن جابر بن عبد الله الانصاري، قال: ولد لرجل منا غلام فسماه القاسم، فقالت الانصار: لا نكنيك ابا القاسم ولا ننعمك عينا، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ولد لي غلام فسميته القاسم، فقالت الانصار: لا نكنيك ابا القاسم ولا ننعمك عينا فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" احسنت الانصار سموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي فإنما انا قاسم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلَامٌ فَسَمَّاهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: لَا نَكْنِيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا نُنْعِمُكَ عَيْنًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَسَمَّيْتُهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: لَا نَكْنِيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا نُنْعِمُكَ عَيْنًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْسَنَتْ الْأَنْصَارُ سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابوسالم نے ‘ ان سے ابوالجعد نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا ‘ تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا ‘ انصار کہنے لگے کہ ہم تمہیں ابوالقاسم کہہ کر کبھی نہیں پکاریں گے اور ہم تمہاری آنکھ ٹھنڈی نہیں کریں گے یہ سن کر وہ انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ! میرے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ میں نے اس کا نام قاسم رکھا ہے تو انصار کہتے ہیں ہم تیری کنیت ابوالقاسم نہیں پکاریں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار نے ٹھیک کہا ہے میرے نام پر نام رکھو ‘ لیکن میری کنیت مت رکھو ‘ کیونکہ قاسم میں ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah Al-Ansari: A man amongst us begot a boy whom he named Al-Qasim. On that the Ansar said, (to the man), "We will never call you Abu-al-Qasim and will never please you with this blessed title." So, he went to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! I have begotten a boy whom I named Al-Qasim and the Ansar said, 'We will never call you Abu-al-Qasim, nor will we please you with this title.' " The Prophet said, "The Ansar have done well. Name by my name, but do not name by my Kunya, for I am Qasim."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 345


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3538جابر بن عبد اللهتسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي
   صحيح البخاري6187جابر بن عبد اللهسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي
   صحيح البخاري3114جابر بن عبد اللهسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي جعلت قاسما أقسم بينكم
   صحيح البخاري3115جابر بن عبد اللهسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي إنما أنا قاسم
   صحيح البخاري6196جابر بن عبد اللهسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي إنما أنا قاسم أقسم بينكم
   صحيح مسلم5589جابر بن عبد اللهسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي بعثت قاسما أقسم بينكم
   صحيح مسلم5588جابر بن عبد اللهتسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي إنما أنا قاسم أقسم بينكم
   صحيح مسلم5591جابر بن عبد اللهتسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي أنا أبو القاسم أقسم بينكم
   صحيح مسلم5593جابر بن عبد اللهسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي
   جامع الترمذي2842جابر بن عبد اللهإذا سميتم باسمي فلا تكتنوا بي
   سنن أبي داود4966جابر بن عبد اللهمن تسمى باسمي فلا يتكنى بكنيتي من تكنى بكنيتي فلا يتسمى باسمي
   سنن ابن ماجه3736جابر بن عبد اللهتسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي
   مسندالحميدي1267جابر بن عبد اللهاسم ابنك عبد الرحمن

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3115 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3115  
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے امام سفیان ثوری ؒ کی روایت لاکراس امر کو قوت دی کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا۔
تاکہ لوگ اسے ابوالقاسم کہیں مگر انصار نے اس کی مخالفت کی جس کی آنحضرت ﷺ نے تحسین فرمائی۔
اس میں راویوں نے شعبہ سے اختلاف کیا ہے۔
جیسے ابوالولید کی روایت اوپر گزری۔
انہوں نے یہ کہا ہے کہ انصاری نے محمد نام رکھنا چاہا تھا۔
قال الشیخ ابن الحجر بین البخارأ الاختلاف علی شعبة ھل أراد الأنصاري أن ابنه محمداً أو القاسم وأشار إلیٰ ترجیح أنه أراد أن یسمه القاسم بروایة سفیان وھو الثوري له عن الأعمش فسماہ القاسم ویترجح أیضاً من حیث المعنی لأنه لم یقع الإنکار من الأنصار علیه إلاحیث لزم من تسمیة ولدہ القاسم أن یصیر بکنی أباالقاسم انتھی (حاشیہ بخاری)
یعنی حضرت امام بخاری نے شعبہ پر اختلاف کو بیان کیا ہے جو اس بارے میں واقع ہو ا کہ انصاری قاسم رکھنا چاہتا تھا یا محمد اور اس ترجیح پر آپ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ قاسم نام رکھنا چاہتا تھا معنی کے لحاظ سے بھی اسی کو ترجیح حاصل ہے‘ انصار کا انکار اسی وجہ سے تھا۔
کہ وہ بچے کا نام قاسم رکھ کر خواابوالقاسم کہلانا چاہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3115   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3115  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒنے مذکورہ روایت لا کر اس امر کو تقویت دی ہے کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا تاکہ لوگ اسے ابو القاسم کی کنیت سے یاد کریں مگر انصارنے اس کی مخالفت کی تو رسول اللھ ﷺ نے اس کردار کی تحسین فرمائی۔
بعض روایات میں ہے کہ انصاری نے اپنے بچے کا نام محمد رکھنا چاہا تھا، لیکن یہ روایت مرجوح ہے۔
بہرحال یہ ممانعت صرف رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ خمس میں رسول اللہ ﷺ اپنے حصے کے مالک تھے یا آپ صرف تقسیم کرنے والے تھے؟ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے مالک نہیں بلکہ اس کی تقسیم آپ کے ذمے ہوتی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3115   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5588  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک شخص کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام محمد رکھا تو اس کی قوم نے کہا، ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے تو وہ اپنے بیٹے کو اپنی پشت پر اٹھا کر چل پڑا اور اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور کہا، اے اللہ کے رسول! میرا ایک بچہ پیدا ہوا ہے، سو میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5588]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو القاسم اس بنا پر تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو جو کچھ ملتا تھا،
وہ علم و فضل ہو یا مال و دولت،
آپ اس کو لوگوں میں بانٹ دیتے تھے اور دوسرے کسی میں یہ خوبی کمال درجہ میں موجود نہیں تھا،
اس لیے اس کا نام قاسم رکھنا درست نہیں ہے،
تاکہ اس کا باپ ابو القاسم نہ کہلا سکے تو اس سے اس کنیت کے رکھنے کی ایک دوسری وجہ نکلی،
اس وجہ کی رو سے اب بھی یہ کنیت رکھنا درست معلوم نہیں ہوتا،
لیکن آپ کے دور میں تو قاسم نام رکھنے کی صورت میں،
ذہن آپ کی طرف منتقل ہو سکتا تھا اور اب اس کا احتمال باقی نہیں ہے،
اس لیے یہ کنیت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5588   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3114  
3114. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم انصار میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اپنے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کیا۔ شعبہ کی ایک روایت میں ہے کہ انصاری نے کہا: میں اسے اپنی گردن پر اٹھا کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ سلیمان کی روایت میں ہے کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے بچے کا نام محمد رکھنا چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے نام پر نام تو رکھ سکتے ہو لیکن تمھیں میری کنیت کے ساتھ کنیت رکھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ مجھے قاسم بنایا گیا ہے۔ میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔ حصین کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں قاسم کی حیثیت سے مبعوث ہوا ہوں، میں تم میں تقسیم کرتا ہوں۔ عمرو نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر ؓسے بیان کیا کہ اس نے اس (بچے) کا نام قاسم رکھنے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میرے نام پر نام رکھ سکتے ہو لیکن میری کنیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3114]
حدیث حاشیہ:
ابو القاسم کنیت رکھنے کے بارے میں امام ماک ؒ کہتے ہیں کہ آپ کی حیات میں یہ فعل ناجائز تھا۔
بعضوں نے اسے ممانعت تنزیہی قرار دیا ہے۔
بعضوں نے کہا محمد یا احمد ناموں کے ساتھ ابوالقاسم کنیت رکھنی منع ہے۔
امام مالک ؒ کے قول کو ترجیح هے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3114   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3114  
3114. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم انصار میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اپنے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کیا۔ شعبہ کی ایک روایت میں ہے کہ انصاری نے کہا: میں اسے اپنی گردن پر اٹھا کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ سلیمان کی روایت میں ہے کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے بچے کا نام محمد رکھنا چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے نام پر نام تو رکھ سکتے ہو لیکن تمھیں میری کنیت کے ساتھ کنیت رکھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ مجھے قاسم بنایا گیا ہے۔ میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔ حصین کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں قاسم کی حیثیت سے مبعوث ہوا ہوں، میں تم میں تقسیم کرتا ہوں۔ عمرو نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر ؓسے بیان کیا کہ اس نے اس (بچے) کا نام قاسم رکھنے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میرے نام پر نام رکھ سکتے ہو لیکن میری کنیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3114]
حدیث حاشیہ:

حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺابوالقاسم اس لیے تھے کہ آپ لوگوں میں مال ومتاع تقسیم کرنے والے تھے اگرچہ آپ کے صاحبزادے کا نام بھی قاسم تھا لیکن آپ نے اس وجہ سے کنیت ذکر نہیں فرمائی۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاری کو بچے کا نام قاسم رکھنے سے منع کیا گیا،حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا نام قاسم نہیں بلکہ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی، اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی بچے کا نام قاسم رکھاجائے گا تو اس کا والد ابو القاسم ہوگا۔
اس بنا پر باپ کی کنیت رسول اللہ ﷺ کی کنیت جیسی ہوگی، ایسا التباس اور اشتباہ سے بچنے کے لیے تھا۔

یاد رہے کہ نام یا کنیت رکھنے کی ممانعت رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔
اب کسی قسم کے اشتباہ یا التباس کا اندیشہ نہیں ہے، لہذا دونوں جائز ہیں۔

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف خمس کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ آپ اسے تقسیم کرنے والے ہیں، مالک نہیں ہیں۔
امام بخاری ؒنے اپنے مدعا پر اس طرح دلیل قائم کی ہے کہ آپ نے اپنانام قاسم رکھا ہے۔
دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3114   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.