محمد بن جعفر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک انصاری نے تنہائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور عرض کی: کیا جس طرح آپ نے فلاں شخص کو عامل بنایا ہے مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ نے فرمایا: "میرے بعد تم خود کو (دوسروں پر) ترجیح (دینے کا معاملہ) دیکھو گے تم اس پر صبر کرتے رہنا، یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر مجھ سے آن ملو۔" (وہاں تمہیں میری شفاعت پر اس صبر و تحمل کا بے پناہ اجر ملے گا۔)
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علیحدگی میں عرض کیا، کیا آپ مجھے فلاں کی طرح عامل نہیں بنائیں گے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے بعد ترجیح سے دوچار ہو گے، تو اس پر صبر کرنا حتیٰ کہ تم مجھے حوض کوثر پر ملو۔“
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5385
´قاضی بنائے جانے کے خواہشمند کو قاضی نہ بنایا جائے۔` اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: کیا آپ مجھے کام نہیں دیں گے جیسے فلاں کو دیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد تم پاؤ گے کہ ترجیحات ۱؎ ہوں گی ایسے حالات میں تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ حوض پر تم مجھ سے ملو۔“[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5385]
اردو حاشہ: (1) حدیث مبارکہ انصار کی منقبت و عظمت پر دلالت کرتی ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نے ان کی مدح فرمائی ہے، نیز آپ نے انہیں صبر کی تلقین بھی فرمائی۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اعلام نبوت میں سے ایک بہت بڑی نشانی بھی ہے کہ جس طرح آپ نے پیش گوئی فرمائی تھی بعد ازاں اسی طرح ہوا۔ (3) ہر شخص کو عہدے پر مقرر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسامیاں اتنی نہیں ہوتیں، لہٰذا دوسرے لوگوں کو حسد اور بغاوت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ صبر کرنا چاہیے ورنہ افراتفری پھیل سکتی ہے۔ (4)”تم محسوس کروگے“ تم سے مراد عام لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور خصوصا انصار بھی کیونکہ بعد میں حکومت قریش کے پاس ہی رہی اور سرکاری عہدوں پر عموماً قریشی ہی فائز رہے۔ (5)”حتیٰ کہ مجھے حوض پر ملو“ یعنی صبر کے نتیجے میں تمہیں حوض کوثر نصیب ہوگا۔ یہ معنیٰ بھی ہوسکتے ہیں کہ ”صبر کرنا تا کہ تمہیں حوض کوثر نصیب ہو“ اور میرا دیدار حاصل ہو جب کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں دونوں چیزوں سے محرومی ہو سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5385
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3792
3792. حضرت اسید بن حضیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک انصاری آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے عامل مقرر نہیں کرتے جیسا کہ فلاں آدمی کو عامل بنایا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد تمہیں ترجیح کا سامنا کرنا پڑے گا (تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی)، لہذا صبر کرنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3792]
حدیث حاشیہ: حافظ نے کہا کہ یہ عرض کرنے والے خود اسید بن حضیر تھے اور جن کو حکومت ملی تھی وہ عمرو بن عاص تھے۔ تشریح: حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ صَحَابِيٍّ عَنْ صَحَابِيٍّ زَادَ مُسْلِمٌ وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَهِشَامُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ بِدُونِ ذِكْرِ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ لَكِنْ بِاخْتِصَارِ الْقِصَّةِ الَّتِي هُنَا وَذَكَرَ كُلٌّ مِنْهُمَا قِصَّةً أُخْرَى غَيْرَ هَذِهِ فَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ تَقَدَّمَ فِي الْجِزْيَةِ وَحَدِيثُ هِشَامٍ يَأْتِي فِي الْمَغَازِي وَوَقَعَ لِهَذَا الْحَدِيثِ قِصَّةٌ أُخْرَى مِنْ وَجْهٍ آخَرَ فَأَخْرَجَ الشَّافِعِيُّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ إِلَى أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ طَلَبَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ بَيْتَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ فَأَمَرَ لِكُلِّ بَيْتٍ بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ وَشَطْرٍ مِنْ شَعِيرٍ فَقَالَ أُسَيْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ جَزَاكَ اللَّهُ عَنَّا خَيْرًا فَقَالَ وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ وَإِنَّكُمْ لَأَعِفَّةٌ صُبُرٌ وَإِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً الْحَدِيثُ(فتح الباری) یعنی یہ روایت صحابی (حضرت انس) کی صحابی (حضرت اسید) سے ہے اور مسلم نے زیادہ کیا کہ اس روایت کو یحییٰ بن سعید اور ہشام بن زید نے انس سے روایت کیا ہے اس میں اسید کا ذکر نہیں ہے لیکن قصہ اختصار سے مذکور ہے اور ان دونوں نے اس کے سوا دوسرا قصہ ذکرکیا ہے۔ یحییٰ بن سعید والی حدیث باب الجزیہ میں مذکور ہوچکی ہے اور ہشام کی حدیث مغازی میں آئے گی اور اس حدیث سے متعلق دوسرے طریق سے ایک اور واقعہ ذکر ہوا ہے جسے امام شافعی نے محمد بن ابراہیم تیمی کی روایت میں ابواسید بن حضیر سے نقل کیا ہے کہ ابواسید نے دوگھرانوں کے لیے انصار میں سے آنحضرت ﷺ سے امداد طلب کی، آنحضرت ﷺ نے ہر گھرانے کے لیے ایک وسق کھجور اور کچھ جو بطور امداد دینے کا حکم فرمایا، اس پر اسید نے آپ ﷺ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جزاک اللہ کہا، آنحضرت ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اے انصاریو! اللہ تم کو بھی جزائے خیر دے، میرے بعد تم لوگ تلخیاں چکھو گے اور دیکھو گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، پس اس وقت تم صبر سے کام لینا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض کو ثر پر آکر ملاقات کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3792
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7057
7057. حضرت اسید بن حضیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں آدمی کو عہدہ دیا ہے لیکن مجھے کوئی عہدہ نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے بعد اپنی حق تلفی دیکھو گے، ایسے حالات میں صبر کرنا حتیٰ کہ تم قیامت کے دن مجھ سے آ ملو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7057]
حدیث حاشیہ: حضرت اسید بن حضیر انصاری اوسی لیلۃ العقبہ ثانیہ میں موجود تھے سنہ20ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7057
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7057
7057. حضرت اسید بن حضیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں آدمی کو عہدہ دیا ہے لیکن مجھے کوئی عہدہ نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے بعد اپنی حق تلفی دیکھو گے، ایسے حالات میں صبر کرنا حتیٰ کہ تم قیامت کے دن مجھ سے آ ملو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7057]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دوسرے شخص کو جو عہدہ دیا ہے اس بنا پر ہے کہ مسلمانوں کی عمومی مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ اس میں اس شخص کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ میرے دور میں ذاتی ترجیحات نہیں ہوں گی۔ میرے بعد تم اس طرح کی حق تلفی اور ترجیحات دیکھو گے۔ لیکن ایسے حالات میں تم نے کوئی فتنہ برپا نہیں کرنا ہے بلکہ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ اپنے حقوق لینے کے لیے غلط راستہ اختیار کرنا اس میں ملک و ملت کا نقصان ہے۔ ممکن ہے حقوق مانگنے والے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ انسان نہ خود کوئی اقدام کرے اور نہ غلط کاروں کے لیے آلہ کار بنے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7057