صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
43. باب غَزْوَةِ خَيْبَرَ:
43. باب: خیبر کی لڑائی کا بیان۔
Chapter: The Battle of Khaibar
حدیث نمبر: 4669
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عبد الرحمن ونسبه غير ابن وهب، فقال ابن عبد الله بن كعب بن مالك: ان سلمة بن الاكوع ، قال: " لما كان يوم خيبر قاتل اخي قتالا شديدا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارتد عليه سيفه فقتله، فقال اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، وشكوا فيه رجل مات في سلاحه وشكوا في بعض امره، قال سلمة: فقفل رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر، فقلت: يا رسول الله، ائذن لي ان ارجز لك، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر بن الخطاب: اعلم ما تقول، قال: فقلت: والله لولا الله ما اهتدينا، ولا تصدقنا ولا صلينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدقت، وانزلن سكينة علينا وثبت الاقدام إن لاقينا والمشركون قد بغوا علينا، قال: فلما قضيت رجزي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قال هذا؟، قلت: قاله اخي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يرحمه الله، قال: فقلت: يا رسول الله إن ناسا ليهابون الصلاة عليه يقولون رجل مات بسلاحه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مات جاهدا مجاهدا "، قال ابن شهاب: ثم سالت ابنا لسلمة بن الاكوع، فحدثني عن ابيه مثل ذلك غير انه، قال: حين قلت إن ناسا يهابون الصلاة عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كذبوا مات جاهدا مجاهدا فله اجره مرتين " واشار بإصبعيه.وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَنَسَبَهُ غَيْرُ ابْنِ وَهْبٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ رَجُلٌ مَاتَ فِي سِلَاحِهِ وَشَكُّوا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَرْجُزَ لَكَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَعْلَمُ مَا تَقُولُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْتَ، وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا، قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ هَذَا؟، قُلْتُ: قَالَهُ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُونَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ يَقُولُونَ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بنِ الأَكْوَعِ، فَحَدَثَنيِ عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ ذَلِكَ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: حِينَ قُلُتُ إِنَّ نَاسًا يَهَابُونَ الصَّلاةَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمِ: " كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَتَيْنِ " وَأَشَارَ بِإصبَعَيهِ.
ابوطاہر نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبدالرحمان نے خبر دی۔۔ ابن وہب کے علاوہ دوسرے راوی نے ان کا نسب بیان کیا تو (عبدالرحمان) بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہا۔۔ کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: جب خیبر کا دن تھا، میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خوب جنگ لڑی، (اسی اثنا میں) ان کی تلوار پلٹ کر انہی کو جا لگی اور انہیں شہید کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس حوالے سے کچھ باتیں کہیں اور اس معاملے میں شک (کا اظہار کیا) کہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے۔ انہوں نے ان کے معاملے کے بعض پہلوؤں میں شک کیا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے آگے رجزیہ اشعار پڑھوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں جو تم کہنے جا رہے ہو۔ کہا: تو میں نے (یہ رجزیہ اشعار) پڑھے: "اللہ کی قسم! اگر اللہ (کا کرم) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے سچ کہا۔" "ہم پر بہت سکینت نازل فرما اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم مضبوط کر دے، مشرکوں نے یقینا ہم پر سخت زیادتی کی۔" کہا: جب میں نے اپنے رجزیہ اشعار ختم کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ (اشعار) کس نے کہے؟" میں نے جواب دیا: میرے بھائی نے کہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ ان پر رحم کرے!" کہا: تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہوئے ڈر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: وہ آدمی اپنے ہی اسلحے سے فوت ہوا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوا ہے۔" ابن شہاب نے کہا: پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے سوال کیا تو انہوں نے مجھے اپنے والد سے اسی کے مانند حدیث بیان کی، مگر انہوں نے (حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ دہراتے ہوئے) کہا: جب میں نے کہا: کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرنے سے ڈرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں نے غلط کہا، وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوئے، ان کے لیے دہرا اجر ہے۔" اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب خیبر کا دن تھا، تو میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر بڑی شدید جنگ لڑی اور اس کی تلوار پلٹ کر اسے لگی اور اسے قتل کر ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اس سلسلہ میں نکتہ چینی کی اور اس کی شہادت میں شک کیا، یہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے اور اس کے بعض معاملہ میں (شہادت میں) شک کیا، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے رجزیہ اشعار سنانے کی اجازت دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے، جو کہنا چاہتے ہو اس کو سوچ سمجھ لو، میں نے کہا، اللہ کی قسم! اگر اللہ کی توفیق نہ ہوتی، ہم راہ یاب نہ ہوتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تو نے سچ کہا) اور ہم پر سکینت نازل فرما اور مڈبھیڑ کی صورت میں ہمیں ثابت قدم رکھ۔ مشرکوں نے یقینا ہم پر زیادتی کی ہے۔ تو جب میں نے رجزیہ کلام ختم کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ کلام کس کا ہے؟ میں نے جواب دیا، میرے بھائی نے کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے خوف محسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں، ایسا آدمی ہے، جو اپنے اسلحے سے فوت ہوا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انتہائی کوشش سے جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا ہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں، پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا، تو اس نے اپنے آپ باپ سے مجھے اس طرح روایت سنائی، صرف یہ فرق تھا کہ اس نے کہا، جب میں نے یہ کہا، کچھ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے ہیبت کھاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے غلط کہا، وہ انتہائی کوشش سے جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا، اس لیے اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1802

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   سنن النسائى الصغرى3152سلمة بن عمرومات جاهدا مجاهدا
   صحيح مسلم4669سلمة بن عمرومات جاهدا مجاهدا
   سنن أبي داود2538سلمة بن عمرومات جاهدا مجاهدا فله أجره مرتين

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4669 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4669  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
عامر بن اکوع،
ایک لحاظ سے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے چچا ہیں،
تو دوسرے لحاظ سے ان کے اخیافی بھائی ہیں،
کہ جاہلیت کے رواج کے مطابق،
اکوع نے عامر کی والدہ کو جو ان کے باپ کی بیوی ہے،
لیکن اس کی ماں نہیں ہے،
اپنے گھر ڈال لیا تھا،
تکملہ ج (3)
ص (225)
۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر نشانہ خطا ہو کر اپنے آپ کو لگ جائے اور انسان اس سے فوت ہوجائے،
تو وہ خود کشی شمار نہیں ہوگا،
یہ اشعاری ہی آپ نے عامر سے سنے تھے،
اب سلمہ رضی اللہ عنہ پڑھے،
اس لیے آپ نے پوچھا،
یہ رجزیہ کلام کس کا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4669   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3152  
´جہاد کرتے ہوئے خود اپنی ہی تلوار سے ہلاک ہو جانے کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کی جنگ میں میرا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بہت بہادری سے لڑا، اتفاق ایسا ہوا کہ اس کی تلوار پلٹ کر خود اسی کو لگ گئی، اور اسے ہلاک کر دیا۔ تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب چہ میگوئیاں کرنے لگے اور شک میں پڑ گئے کہ وہ اپنے ہتھیار سے مرا ہے ۱؎ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹ کر آئے تو میں نے عرض کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3152]
اردو حاشہ:
جس شخص کی نیت کافروں سے جہاد کرنے کی ہو اور وہ دوران جہاد میں مارا جائے‘ خواہ دوشمن کے ہاتھوں یا اپنے ساتھیوں کی غلطی سے اپنے ہاتھوں‘ وہ شہید ہی متصور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیت کو دیکھتا ہے نہ کہ ظاہری اعمال کو۔ حضرت سلمہb کے بھائی اگرچہ اپنے ہتھیار ہی سے مارے گئے مگر ان کی نیت خود کشی کی نہیں تھی‘ لہٰذا ان کے لیے دہرا اجر ہے۔ جہاد کا بھی اور شہادت کا بھی۔ رَضِیَ اللّٰـہٰ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3152   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2538  
´اپنے ہی ہتھیار سے زخمی ہو کر مر جانے والے شخص کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کر دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مر گیا ہو (وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے؟)، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے۔‏‏‏‏ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: پھر میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2538]
فوائد ومسائل:
اس مجاہد کے لئے دوہرے اجر کی خوشخبری ممکن ہے۔
جہاد اور شہادت کی بنا پر ہو۔
واللہ اعلم۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2538   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.