قتیبہ بن سعید اور محمد بن عباد نے۔۔ الفاظ ابن عباد کے ہیں۔۔ ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہمیں حاتم بن اسماعیل نے سلمہ بن اکوع کے آزاد کردہ غلام یزید بن ابی عبید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے رات کے وقت سفر کیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا تم ہمیں اپنے نادر جنگی اشعار سے نہیں سناؤ گے؟ اور عامر رضی اللہ عنہ شاعر آدمی تھے، وہ اتر کر لوگوں کے (اونٹوں) کے لیے حدی خوانی کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے: "اے اللہ! اگر تو (فضل و کرم کرنے والا) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، ہم تیرے نام پر قربان، ہم نے جو گناہ کیے ان کو بخش دے اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم جما دے اور ہم پر ضرور بالضرور سکینت اور وقار نازل فرما۔ ہمیں جب بھی آواز دے کر بلایا گیا ہم آئے، ہمیں آواز دے کر ان (آواز دینے والے) لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا (اور ہم اس پر پورے اترے۔) " تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ (حدی خوانی کر کے) اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟" لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ سے اس کی محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے) فرمایا: "اللہ اس پر رحم کرے!" لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: (اس کے لیے شہادت) واجب ہو گئی، اے اللہ کے رسول! آپ نے (اس کے حق میں دعا مؤخر فرما کر) ہمیں اس (کی صحبت) سے زیادہ مدت فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟ (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہم خیبر پہنچے تو ہم نے ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک کہ ہمیں (شدید بھوک کے) مخمصے نے آ لیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ نے اسے ان (جہاد کرنے والے) لوگوں کے لیے فتح کر دیا ہے۔" جب لوگوں نے اس دن کی شام کی جب انہیں فتح عطا کی گئی تھی تو انہوں نے بہت سی (جگہوں پر) آگ جلائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ آگ کیسی ہے اور یہ لوگ کس چیز (کو پکانے) کے لیے اسے جلا رہے ہیں؟" انہوں نے جواب دیا: گوشت (کو پکانے) کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کون سا گوشت؟" انہوں نے جواب دیا: پالتو گدھوں کا گوشت۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے (پانی سمیت) بہا دو اور ان (برتنوں) کو توڑ دو۔" اس پر ایک آدمی نے کہا: یا اسے بہا دیں اور برتن دھو لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا ایسے کر لو۔" کہا: جب لوگوں نے مل کر صف بندی کی تو عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، انہوں نے مارنے کے لیے اس (تلوار) سے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر آ لگی اور وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے۔ جب لوگ واپس ہوئے، سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور اس وقت انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاموش دیکھا تو آپ نے پوچھا: "تمہیں کیا ہوا ہے؟" میں نے آپ سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا عمل ضائع ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: "کس نے کہا ہے؟" میں نے کہا: فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے۔ تو آپ نے فرمایا: "جس نے بھی یہ کہا، غلط کہا ہے، اس کے لیے تو یقینا دو اجر ہیں۔" آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کیا۔" وہ تو خود جم کر جہاد کرنے والے مجاہد تھے، کم ہی کوئی عربی ہو گا جو اس راستے پر ان کی طرح چلا ہو گا۔" قتیبہ نے حدیث کے دو حرفوں (القین کے آخری دو حرفوں ی اور ن) میں محمد (بن عباد) کی مخالفت کی ہے اور (محمد) بن عباد کی روایت میں (القین کے بجائے) الق (ضرور بالضرور کی تاکید کے بغیر محض) "نازل کر" کے الفاظ ہیں
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے لیے نکلے، تو ہم رات بھر چلتے رہے، تو لوگوں میں سے کسی آدمی نے حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا، کیا آپ ہمیں اپنے جنگی اشعار نہیں سنائیں گے اور عامر رضی اللہ تعالی عنہ ایک شاعر انسان تھے، تو وہ اتر کر لوگوں کے اونٹوں کے لیے حدی خوانی کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے، اے اللہ اگر تیری توفیق شامل حال نہ ہوتی تو ہم راہ یاب نہ ہوتے، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہم نماز پڑھتے، بخش دے ہم تجھ پر نثار، جو گناہ ہم نے کیے اور اگر مڈبھیڑ ہو تو ہمارے قدم ج دے۔ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب بلایا جاتا ہے تو ہم آ جاتے ہیں تو ہم آ جاتے ہیں اور چیخ کے ذریعے بلا کر انہوں نے ہمارے خلاف مدد طلب کی ہے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”یہ حدی خوانی کے ذریعہ اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟“ صحابہ کرام نے کہا، عامر ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اللہ اس پر رحم فرمائے“ تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اس کے لیے شہادت لازم ہو گئی، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں اس سے کیوں فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔ تو ہم خیبر پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، حتیٰ کہ ہم سخت بھوک سے دوچار ہو گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے فتح کر دیا۔“ تو جب لوگوں نے اس دن کی شام کی، جس دن وہ فتح ہوا تھا، لوگوں نے بہت آگیں روشن کیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”یہ آگ کس لیے ہیں؟ انہیں کس چیز کے پکانے کے لیے جلایا گیا ہے۔“ تو صحابہ کرام نے کہا، گوشت کے لیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”کون سا گوشت“ لوگوں نے جواب دیا، گھریلو گدھوں کا گوشت، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہانڈیاں الٹ دو اور انہیں توڑ دو۔“ تو ایک آدمی نے عرض کیا، یا انہیں انڈیل کر انہیں دھوئیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اس طرح کر لو۔“ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب صحابہ کرام نے صف بندی کی، تو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، تو انہوں نے مارنے کے لیے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا، تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس سے شہید ہو گئے، تو جب صحابہ کرام واپس لوٹے، تو حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید بن ابی عبید کا ہاتھ پکڑے ہوئے انہیں بتایا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چپ چاپ دیکھا، فرمایا، ”تمہیں کیا ہوا؟“ میں نے آپ سے عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے، عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے اعمال رائیگاں گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”کس نے یہ بات کہی ہے؟“ میں نے کہا، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھی یہ بات کہی ہے خطا کی ہے، اس کے لیے دو اجر ہیں۔“ آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا لیا اور فرمایا: ”وہ انتہائی کوشش کرنے والا مجاہد ہے، عرب کی سرزمین میں اس جیسا کم ہی عربی چلا ہے۔“ قتیبہ نے دو لفظوں میں محمد بن عباد کی مخالفت کی ہے، ابن عباس کی روایت میں ہے، الق سكينة علينا