ابن عیینہ، سعید بن ابی ہلال اور محمد بن مطرف، ان سب نے ابوحازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، ابن ابی ہلال کی حدیث میں ہے: "آپ کا چہرہ مبارک نشانہ بنایا گیا" اور ابن مطرف کی حدیث میں ہے: "آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے ابو حازم کی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں اور ابن ابی حلال کی روایت میں ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کر دیا گیا اوپر ”جرح“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4644
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنگ احد میں جب مسلمانوں نے شاندار فتح حاصل کرلی تو جبل رماۃ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تیر اندازوں کو متعین فرمایا تھا، انہوں نے ایک خوفناک غلطی کا ارتکاب کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر حال میں اپنے پہاڑی مورچے پر ڈٹے رہنے کی سخت تاکید فرمائی، لیکن ان تاکیدی احکامات کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان دشمن کا مال غنیمت لوٹ رہے ہیں تو وہ بھی اس کی لالچ میں، اپنے مورچہ کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئے ان کے کمانڈر نے انہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے احکامات یاد دلائے، لیکن ان کی غالب اکثریت نے ان کی بات کو اہمیت نہیں دی، پچاس میں سے چالیس تیر اندازوں نے اپنے مورچے چھوڑ دیئے اور مال غنیمت سمیٹنے کے لیے عام لشکر کے کے ساتھ آ ملے، خالد بن ولید نے اس زریں موقعہ سے فائدہ اٹھایا، چند لمحوں میں حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہ جانے والے چند ساتھیوں کا صفایا کر کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، ان کے شہسواروں نے ایک نعرہ بلند کیا، جس سے مشرکین کا شکست خوردہ لشکر دوبارہ جمع ہو گیا، اب مسلمان آگے اور پیچھے سے گھیرے میں آ گئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ پیچھے تشریف فرما تھے، آزمائش کے اس نازک ترین لمحہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بچا کر بھاگنے کی بجائے، اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بچانے کا فیصلہ کیا اور نہایت بلند آواز سے صحابہ کو پکارا، اللہ کے بندو! ادھر آؤ، مشرکوں کو پتہ چل گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر ہیں، لہٰذا ان کا دستہ مسلمانوں سے پہلے آنے تک پہنچ گیا، اس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا بوجھ ڈال دیا اور چاہا کہ آپ کا کام تمام کر دیں، اس حملہ میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ کو پتھر مارا، جس سے آپ پہلو کے بل گر گئے اور آپ کا داہنا نچلا رباعی دانت ٹوٹ گیا اور آپ کا نچلا ہونٹ زخمی ہو گیا، عبداللہ بن قمیئہ نے ایک زوردار تلوار ماری، جو آنکھ سے نیچے کی ابھری ہوئی ہڈی پر لگی، اس کی وجہ سے خود کی دو کڑیاں آپ کے چہرے انور کے اندر گھس گئیں، اس نے کہا، لیجئے! میں قمئیہ (توڑنے والا) کا بیٹا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے فرمایا، ”اللہ تجھے توڑ ڈالے۔ “ جنگ اُحد کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں دیکھیں۔