وہیب اور خالد دونوں نے عمرو بن یحییٰ سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی۔ اس میں ہے: ”انہیں ایک نہر میں ڈالا جائے گا جسے الحیاۃ کہا جاتا ہے۔“ اور دونوں نے (پچھلی روایت کی طرح اس لفظ میں) کوئی شک نہیں کیا۔ خالد کی روایت میں (گآ) یہ ہے: ” جس طرح کوڑا کرکٹ (سیلاب میں بہ کر آنے والے مختلف قسم کے بیج) سیلاب کے کنارے اگتے ہیں۔“ اور وہیب کی روایت میں ہے: ”جس طرح چھوٹا سا بیج سیاہ گارے میں یا سیلاب کے خس و خاشاک میں اگتا ہے۔“
امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، جس میں ہے: ”اور وہ ایک ایسی نہر میں ڈالے جائیں گے جس کو ”زندگی“ کی نہر کہا جائے گا-“ دونوں نے اس میں شک نہیں کیا۔ اور خالد کی روایت میں ہے: ”جس طرح کوڑا کرکٹ اگتا ہے سیلاب کے کنارے۔“ اور وہیب کی روایت میں ہے: ”جس طرح قدرتی بیج سیاہ گارے میں یا سیلاب کے خس و خاشاک میں اگتا ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 184
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (456)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 458
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) الْغُثَاءَةُ: سیلاب کے پانی کی جھاگ میں کوڑا کرکٹ یا درختوں کے گلے سڑے پتے جو سیلاب کے جھاگ میں ملے جلے ہوں۔ (2) حَمِئَةٌ: سیاہ گارا۔ (3) حَمِيلَةٌ: غثاء کو کہتے ہیں، یعنی سیلاب کے ساتھ آنے والا کوڑا کرکٹ۔