یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ اور سفیان دونوں نے داود سے اسی سند کے ساتھ اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا، البتہ سفیان کی حدیث میں ہے: اس نے تین بار زنا کا اعتراف کیا۔ (چوتھی بار کے اعتراف پر اسے سزا سنائی گئی
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سندوں سے، داؤد کی مذکورہ سند سے اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کرتے ہیں، ہاں سفیان کی حدیث میں ہے اس نے زنا کا اعتراف تین دفعہ کیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4430
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: واقعات کے بیان میں راویوں میں بعض جزئیات کے بیان میں کچھ اختلاف ہو جاتا ہے، لیکن اصل واقعہ کے بیان میں سب متفق ہوتے ہیں اس لیے وہ جزئی اختلاف کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، اس لیے اس حدیث میں کہیں دو دفعہ واپس کرنے کا ذکر ہے کہیں تین اور کسی روایت میں چار دفعہ، صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اس کو ٹالنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ باز نہ آیا تو چوتھی دفعہ اس سے بدکاری کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا اور اس کے بیان کے بعد، اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، جس سے معلوم ہوتا ہے چار دفعہ اقرار کرانا مقصود نہ تھا اور رجم کے بعد فوری طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا نہیں کی تاکہ لوگوں کے اندر اس سے باز رہنے کا جذبہ پیدا ہو اور برا بھی نہیں کہا، کیونکہ اپنے آپ کو حد جھیلنے کے لیے پیش کرنا معمولی کام نہیں ہے، بہت مضبوط ایمان والا ہی یہ کام کر سکتا ہے۔