الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3917
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا (فالتو ہونے کی صورت میں) گر وہ خود کاشت نہ کر سکے (تو اپنے بھائی کو مسخ کے طور پر دے دے) تاکہ اس کا بھائی کاشت کر لے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3917]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے زمین کا بے آباد پڑے رہنا،
کہ اس میں کھیتی باڑی نہ کی جائے یا کسی اور مصرف میں اسے نہ لایا جائے درست نہیں ہے،
زمین سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ایسے ویسے ہی نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس انسان کے پاس فالتو زمین ہے اور وہ اسے کاشت نہیں کر سکتا،
تو وہ اسے اپنے کسی بھائی کو منیحۃ دے دے،
عربی زبان میں منیحۃ اصل میں اس دودھ دینے والی بکری یا اونٹنی کو کہتے ہیں جو کسی بھائی کو دودھ پینے کے لیے دے دی جائے،
اور جب دودھ بند ہو جائے تو وہ مالک کو واپس کر دے۔
(معجم مقاییس اللغة،
ج: 5،
ص: 278،
تاج العروس،
ج: 2،
ص: 223)
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”المنحة مردودة“ دودھ دینے والا جانور واپس کیا جائے گا۔
ایک جلیل القدر مفسر،
محدث،
فقیہ اور لغوی امام ابو عبید القاسم بن سلام،
اس حدیث کا یہ معنی کرتے ہیں:
يدفعها الی اخيه حتی يزرعها فاذا رفع زعرهها ردها الی صاحبها:
کہ فالتو زمین اپنے بھائی کو کاشت کے لیے دے دے،
جب وہ اس سے پیداوار اٹھا لے،
تو زمین مالک کو واپس کر دے۔
(لسان العرب،
ج: 3،
ص: 446)
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان شخصی طور پر اپنی زمین کا مالک ہے،
اس لیے آپﷺ نے فرمایا:
”اگر زمین اس کی ضرورت سے زائد ہے اور وہ خود کاشت بھی نہیں کر سکتا ہے“ اس طرح آپﷺ نے اس کو زمین کا مالک قرار دیا ہے۔
اس کے بعد فرمایا،
”اگر وہ کاشت نہیں کر سکتا تو کسی بھائی کو عارضی طور پر پیداوار حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے،
تو پھر اپنے پاس ہی رکھے۔
“ تو ہر صورت میں مالک وہی ہے،
لیکن تیسری صورت میں جبکہ اس نے زمین کاشت نہیں کرنی ویسے ہی رکھنی ہے تو اس کو کیا فائدہ ہو گا۔
اگر عارضی طور پر مسلمان بھائی کو دے دیتا،
تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتا،
وہ اور اس کے بال بچے اس کو دعائیں دیتے اور آخرت میں بے شمار اجر و ثواب حاصل ہوتا،
اس لیے بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کو چاہیے کہ وہ ضرورت سے زائد فالتو زمینوں سے ضرورت مند اور محتاج کسانوں کو عارضی طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔
اگرچہ زمین اپنی ہی ملکیت میں رکھیں یا کم از کم ان کو مراعات اور سہولتیں ہی فراہم کریں جس سے وہ بھی آسودہ اور خوشحال ہو سکیں،
اور ان کے دلوں میں ان کے خلاف بغض و نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں اور نہ ہی کوئی خود غرض لیڈر انہیں استعمال کر سکے اور زمینیں چھیننے کا خطرہ بھی نہ رہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3917
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3924
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، زمین بٹائی پر دیتے تھے، اور ان سے قصارۃ اور فلاں زمین کا حصہ لیتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو وہ خود کاشت کرے یا اس کا بھائی اس کو کاشت کرے، وگرنہ اس کو پڑی رہنے دے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3924]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قصری سے مراد یہ ہے کہ گندم گاہنے کے بعد،
خوشوں،
بالیوں میں جو دانے رہ جاتے ہیں۔
جن کو قصارہ کہتے ہیں وہ مالک کے زمین کے ہوں گے اور من کذا سے مراد یہ ہے،
جداول یا نالیوں پر جو زمین ہے اس کی پیداوار بھی ہم لیں گے،
اور یہ طریقہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں غرر ہے،
اور مزارع کا نقصان ہے جس کو اگلی حدیث میں ماذیانات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3924