یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔۔۔ اسی کے مانند
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3907
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر آقا مالدار غلام فروخت کرے، تو اس کا مال، مالک کا ہو گا۔ شوافع اور احناف کے نزدیک، وہ مال در حقیقت مالک کا ہی ہے۔ کیونکہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ اس کی طرف نسبت محض اس بنا پر کر دی گئی ہے کہ وہ اس کے پاس ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ امام مالک کے نزدیک، اگر آقا، غلام کو مال دے دے تو وہ اس کا مالک بن جائے گا، اگر مشتری مال لینے کی شرط لگا لے تو مال بھی مشتری کا ہوگا۔ امام مالک کے نزدیک مشتری کی شرط ہر صورت میں جائز ہے، مال قیمت کی جنس سے ہو یا غیر جنس سے، اور وہ مال قیمت سے زائد ہو یا کم، لیکن امام شافعی کے نزدیک اگر مال درا ہم ہیں تو قیمت دیناروں کی صورت میں ادا کرنا ہو گی اور مال دینار ہیں تو قیمت دراہم کی صورت میں ہو گی۔ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر قیمت اور مال کی جنس الگ الگ ہے تو ہر صورت میں جائز ہے اور اگر جنس ایک ہے تو قیمت، اس مال سے زائد ہونی چاہیے۔ اگر قیمت اور مال برابر ہے غلام کے پاس، پانچ سو درہم ہیں اور قیمت بھی یہی ہے، یا مال قیمت سے زائد ہے، مال ہزار درہم ہے اور قیمت آٹھ سو درہم ہے، تو ان دونوں صورتوں میں جائز نہیں ہے، اگر قیمت ہزار درہم ہو اور غلام کے پاس پانچ سو یا آٹھ سو درہم ہوں تو پھر جائز ہے۔