عبداللہ بن حارث مخزومی نے ہمیں خبر دی، کہا: ہمیں ضحاک بن عثمان نے بکیر بن عبداللہ بن اشج سے حدیث بیان کی، انہوں نے سلیمان بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے مروان سے کہا: تم نے سودی تجارت حلال کر دی ہے؟ مروان نے جواب دیا: میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ادائیگی کی دستاویزات (چیکوں) کی بیع حلال قرار دی ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل قبضہ کرنے سے پہلے غلے کو بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ کہا: اس پر مروان نے لوگوں کو خطبہ دیا اور ان (چیکوں) کی بیع سے منع کر دیا۔ سلیمان نے کہا: میں نے محافظوں کو دیکھا وہ انہیں لوگوں کے ہاتھوں سے واپس لے رہے تھے
سلیمان بن یسار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مروان بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کو کہا، تو نے سود کو جائز قرار دے دیا ہے، تو مروان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: میں نے کیا کیا ہے؟ تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تو نے دستاویز (ہنڈی) کی بیع کو جائز قرار دیا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اناج کو قبضہ میں لیے بغیر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے، تو مروان نے لوگوں کو خطاب کیا اور دستاویز کی بیع سے روک دیا، سلیمان کہتے ہیں میں نے سپاہیوں (محافظوں) کو دیکھا، وہ دستاویز لوگوں کےہاتھوں سے چھین رہے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3849
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: صكاك: صك کی جمع ہے جو فارسی لفظ چک کی تعریب (عربی بنانا) ہے، تحریر، نوشتہ، اس سے مراد قرضہ کی ادائیگی کی دستاویز ہے۔ مثلاً آج کل زمیندار، کاشتکار مل والوں کو گنا فروخت کرتے ہیں، تو وہ انہیں ایک رسید دے دیتے ہیں جس میں یہ لکھا ہوتا ہے، یہ گنا اتنے من ہے اس بھاؤ پر اس کی اتنی قیمت بنتی ہے اور یہ ایک ماہ بعد فلاں تاریخ کو ادا کر دی جائے گی، کاشتکار یا زمیندار وہ رقم فوراً لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ رسید کسی اور انسان کو کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے، اس دور میں بیت المال کی طرف سے لوگوں کا غلہ یا رقم کے لیے تحریر ملتی تھی کہ فلاں ماہ اس کو اتنا غلہ یا رقم مل جائے گی اور لوگ اس کو وقت مقررہ کے آنے سے پہلے کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے، حضرت ابو ہریرہ نے اس کمی و بیشی کو سود قرار دیا ہے۔ اور اس کی ممانعت کی وجہ یہی بیان کی ہے کہ یہ قبضہ سے پہلے فروخت کرنا ہے۔ فوائد ومسائل: دستاویز یا چیک کسی دوسرے شخص کو نقد کم قیمت پر فروخت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ قبضہ سے پہلے بیع ہے۔ پھر رقم کا رقم سے کمی و بیشی کے ساتھ معاوضہ اور اس میں نسیہ ادھار بھی ہے، حالانکہ ایک کرنسی کا مبادلہ ہاتھوں ہاتھ اور برابر ہونا چاہیے، نیز اس میں غرر (دھوکا) بھی ہے، معلوم نہیں وہ رقم اس وقت ملے یا نہ ملے، جیسا کہ آج کل ملوں والے کرتے ہیں، لوگوں کے کروڑوں روپے ان کے ذمہ ہیں، انہیں دستاویز کی بیع کے تحت، علماء حقوق مجردہ کی بحث کرتے ہیں۔ علاقہ تقی عثمانی نے ان کی چار قسمیں بنائی ہیں: حقوق شرعیہ، جو شریعت سے ثابت ہیں، مثلا شفعہ کا حق، حق ولاء (نسبت کا حق) حق نسب، حق قصاص، حق طلاق، یہ حقوق کسی کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے اس لیے ان کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں ہے۔ مال یا رقم کی وصولی کا حق، مثلا ایک آدمی نے اپنا کوئی سامان یا چیز فروخت کی، تو اس کو قیمت کی وصولی کا حق مل گیا، یا کسی نے دوسرے انسان کو قرضہ دیا، تو اسے اپنے قرضہ کی وصولی کا حق مل گیا، یا حکومت نے کسی انسان کے لیے انعام دینے کا یا کسی ادارہ کو گرانٹ دینے کا اعلان کیا، تو اس کو اپنا انعام اور گرانٹ لینے کا حق مل گیا، اب ان سب صورتوں میں کوئی انسان اپنے حق وصولی کو دوسرے کو فروخت کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ رقم اسے کچھ عرصہ بعد ملنی ہے اور اسے فوری ضرورت ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ ظاہر ہے اس کی صورت چیک یا دستاویز کی فروخت ہونے والی ہے اس کے تحت بلز آف اکسچینج (Bills Exchange) آتے ہیں، جس کو اردو میں ہنڈی اور عربی میں کمبیلات کہتے ہیں۔ مثلا ایک انسان اپنا سامان تین ماہ کے ادھار پر بیچ دیتا ہے اور خریدار اس کو چیک دے دیتا ہے، جو وہ تین ماہ بعد وصول کر سکے گا یا ایک دستاویز تحریرا لکھ دی، چیک کی صورت میں مال فروخت کرنے والا چیک ایک بینک کے پاس لے جاتا ہے اور اسے جا کر کم رقم پر فروخت کر دیتا ہے، جس کو کمیشن کا نام دیا جاتا ہے، رقم کی ادائیگی کی معیاد جتنی زیادہ ہو گی کمیشن اتنا ہی زیادہ ہو گا، اور معیاد جس قدر کم ہو گی، اس مناسبت سے کمیشن کم ہو گا اور ایک بینک، بسا اوقات یہ چیک دوسرے بینک کو فروخت کر دیتا ہے، ظاہر اس کا حکم بھی مذکورہ بالا دستاویز والا ہے۔ دستاویز یا وثیقہ کی بنیاد پر فائدہ اٹھانا، مثلا ایک کمپنی نے کسی کو شخصی طور پر، ہوائی جہاز کا ٹکٹ دیا ہے یا کسی ادارہ نے اپنے ملازم کو ریل یا بس کا ٹکٹ دیا ہے، جس پر وہ ملازم ہی سفر کر سکتا ہے تو ایسے ٹکٹ فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، ہاں اگر اس کو آگے دینے کی اجازت ہو تو پھر وہ آگے فروخت کر سکتا ہے یا ہبہ کر سکتا ہے، یہی حال امپورٹ اور روٹ پرمٹ کی ہے، اگر کسی انسان نے خاص طور پر حکومت سے اپنے لیے حاصل کیا ہے، اور صرف یہ غرض ہے کہ اس کو آگے فروخت کر کے پیسہ کمایا جائے تو اس کا مقصد تجارت یا کاروبار کرنا اور بسیں چلانا نہیں ہے، تو یہ رشوت ہے جو جائز نہیں ہے۔ اور اس سے ان لوگوں کا حق مارا جاتا ہے جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ کسی سے کوئی معاہدہ کرے یا توڑنے کا حق، مثلا مکان یا دوکان جو کرایہ پر ہیں، ان کی پگڑی کہ دوکان یا مکان کا مالک جب یہ چیزیں کرایہ پر دیتا ہے تو اس سے کرایہ کے سوا پیشگی کچھ رقم وصول کر لیتا ہے، جس کی بناء پر وہ اس سے مکان یا دوکان چھڑا نہیں سکتا اور طے شدہ شرط کے مطابق کرایہ وصول کرتا رہے گا، اور کرایہ دار یہ مکان یا دوکان آگے کسی اور کو کرایہ پر دیتا ہے اور اس سے پگڑی وصول کرتا ہے، تو یہ بھی قبضہ دینے کی رقم وصول کرتا ہے اور قبضہ دینا بھی حقوق مجردہ میں آتا ہے یہ کوئی حسی یا مادی چیز نہیں ہے اس لیے جائز نہیں ہے، بعض حضرات نے حقوق اشاعت کو بھی اس کے تحت داخل کیا ہے، علامہ تقی عثمانی نے اپنے والد مفتی محمد شفیع کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مصنف اپنا مسودہ کسی ناشر کو فروخت کر سکتا ہے، لیکن ناشر ایک دفعہ طبع کرنے کے بعد حق اشاعت اپنے لیے مخصوص نہیں کر سکتا، لیکن ظاہر بات ہے کہ ایک ناشر نے تو مصنف کو اس کے حق ادا کر کے کتاب چھاپی ہے، تو اب دوسرا ناشر بغیر معاوضہ کے اگر کتاب شائع کرے گا یا کتاب کا فوٹو لے کر شائع کر دے گا تو اس کا خرچ پہلے ناشر کے مقابلہ میں بہت کم آئے گا، اس لیے وہ کتاب سستی فروخت کرے گا، اس سے پہلے ناشر کو نقصان ہو گا۔ کیونکہ پہلے ناشر نے مصنف کو رائلٹی دی، کتاب کی کتابت کرائی اور اس کی اجرت ادا کی، پھر نظرثانی یا تصحیح کرنے والے کو رقم دی اور پھر انتہائی محنت کر کے کتاب کو مارکیٹ میں متعارف کرایا، اس پر اس کا خرچہ اٹھایا، اب دوسرا ناشر محض فوٹو لے کر اس کو شائع کر دیتا ہے تو کیا پہلے ناشر کو نقصان نہیں ہو گا؟ اس لیے اصل ناشر کی اجازت کے بغیر اس کو جائز قرار دینا یا حقوق طباعت کو ناجائز قرار دینا درست نہیں ہے، ہاں اگر اصل ناشر نے اس کی اشاعت بند کر دی ہے یا اس کو اس کی اشاعت پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر دوسرے ناشر کو اجازت ہونی چاہیے۔