● صحيح البخاري | 6852 | عبد الله بن عمر | يبيعوه في مكانهم حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2137 | عبد الله بن عمر | يبتاعون جزافا يعني الطعام يضربون أن يبيعوه في مكانهم حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2124 | عبد الله بن عمر | يباع الطعام إذا اشتراه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2126 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2131 | عبد الله بن عمر | الذين يشترون الطعام مجازفة يضربون على عهد رسول الله أن يبيعوه حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2133 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● صحيح البخاري | 2136 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2167 | عبد الله بن عمر | يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه |
● صحيح البخاري | 2166 | عبد الله بن عمر | نهانا النبي أن نبيعه حتى يبلغ به سوق الطعام |
● صحيح مسلم | 3841 | عبد الله بن عمر | انتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● صحيح مسلم | 3840 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح مسلم | 3844 | عبد الله بن عمر | من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ويقبضه |
● صحيح مسلم | 3845 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● صحيح مسلم | 3846 | عبد الله بن عمر | إذا اشتروا طعاما جزافا أن يبيعوه في مكانه حتى يحول |
● صحيح مسلم | 3847 | عبد الله بن عمر | إذا ابتاعوا الطعام جزافا يضربون في أن يبيعوه في مكانهم وذلك حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح مسلم | 3842 | عبد الله بن عمر | من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3492 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3493 | عبد الله بن عمر | نبتاع الطعام فيبعث علينا من يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● سنن أبي داود | 3495 | عبد الله بن عمر | نهى أن يبيع أحد طعاما اشتراه بكيل حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3494 | عبد الله بن عمر | نهى رسول الله أن يبيعوه حتى ينقلوه |
● سنن أبي داود | 3498 | عبد الله بن عمر | إذا اشتروا الطعام جزافا أن يبيعوه حتى يبلغه إلى |
● سنن النسائى الصغرى | 4611 | عبد الله بن عمر | نهاهم أن يبيعوا في مكانهم الذي ابتاعوا فيه حتى ينقلوه إلى سوق الطعام |
● سنن النسائى الصغرى | 4599 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن النسائى الصغرى | 4600 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● سنن النسائى الصغرى | 4612 | عبد الله بن عمر | رأيت الناس يضربون على عهد رسول الله إذا اشتروا الطعام جزافا أن يبيعوه حتى يؤووه إلى رحالهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4610 | عبد الله بن عمر | نهاهم رسول الله أن يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه |
● سنن النسائى الصغرى | 4609 | عبد الله بن عمر | يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعنا فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● سنن النسائى الصغرى | 4608 | عبد الله بن عمر | نهى أن يبيع أحد طعاما اشتراه بكيل حتى يستوفيه |
● سنن ابن ماجه | 2229 | عبد الله بن عمر | نهانا رسول الله أن نبيعه حتى ننقله من مكانه |
● سنن ابن ماجه | 2226 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 499 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 238
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4599
´اپنی ملکیت اور قبضہ میں لینے سے پہلے غلہ بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4599]
اردو حاشہ:
(1) جب کوئی شخص غذائی اجناس خریدے تو اسے اس وقت تک آگے نہیں بیچ سکتا جب تک وہ اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔ اگر وہ مکیل چیز ہے تو اس کا ماپ پورا کرے اور اگر وہ موزون ہے تو اس کا وزن پورا کر لے۔ اگر ماپے تو لے اور قبضے میں لیے بغیر ہی بیچے گا تو شرعاً یہ کام ناجائز اور حرام ہوگا۔ باب کے تحت درج تمام احادیث اس مسئلے کی پوری پوری وضاحت کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج کل یہ وبا عام ہے کہ تاجر لوگ عموماً سودے پر سودا کیے جاتے ہیں جبکہ اصل چیز (مبیع) ایک ہی جگہ کسی سٹور وغیرہ میں پڑی رہتی ہے، کوئی خریدار اسے دیکھتا ہے نہ اس کا وزن یا کیل (ماپ تول) ہی معلوم کرتا ہے بلکہ اسے آگے سے آگے فروخت کیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے پیسوں ہی پر نفع پہ نفع لیے جاتے ہیں، چيز کو دیکھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مبیع چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے؟ غرض کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن چیز آگے بک رہی ہوتی ہے بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور یہی چیز باہمی جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب کوئی شخص غذائی جنس، یعنی غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لے، اور کسی دوسری جگہ اسے فروخت کر دے۔
(2) اس حدیث میں یہ حکم صرف غلے کے بارے میں ہے۔ امام نسائی کا ذہن بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ فروخت کے لیے قبضے کی شرط صرف غلے میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ہر چیز میں فروخت سے پہلے قبضہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ زمین ومکان کے علاوہ تمام اشیاء میں اس حکم کو رائج فرماتے ہیں۔ گویا انھوں نے منقولہ وغیرہ منقول اشیاء میں فرق کیا ہے کہ منقولہ میں قبضہ ضروری ہے۔ باقی رہی جائیداد غیر منقولہ تو اس کو کون سا اٹھایا یا منتقل کیا جا سکتا ہے کہ اس پر قبضے کی قید ضروری ہو۔
(3) بیچنے سے پہلے قبضے کی قید لگانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ قبضے میں لینے سے مال کی جانچ پڑتال ہو جائے، اس کی اصل کیفیت معلوم ہو جائے، نیز خریدار چیز کے خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے، مثلاً: وہ غلہ وہاں سے اٹھا کر اپنی دکان میں لے جائے۔ اگر وہ ڈھیر تولا نہیں گیا تھا تو اس کو تولے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔ اگر کسی نے کوئی چیز خرید کر اسی جگہ پڑی کی پڑی بیچ دی تو گویا اس نے پیسہ لگانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا اور تھوڑا پیسہ لگا کر زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ سود کے مشابہ ہے۔ کسی کو پیسہ دیا، پھر کچھ عرصے کے بعد زیادہ لے لیا۔ اسلام بلا محنت کمائی کو جوا اور سود قرار دیتا ہے۔ حلال کی کمائی وہی ہے جو محنت اور کام کے عوض ہو۔ رقم پر سود لینا، بانڈ خرید کر یا کسی اور طریقے سے (قرعہ اندازی کے ذریعے سے) انعام حاصل کرنا یہ سب حرام ہیں کیونکہ محنت سے خالی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4599
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4608
´جو اناج ناپ کر خریدا جائے، اسے پورا اپنی تحویل میں لے لینے سے پہلے بیچنے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی ناپ کر خریدا ہوا اناج بیچے جب تک کہ اسے پورا پورا اپنی تحویل میں نہ لے لے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4608]
اردو حاشہ:
”ماپ کر خریدے ہوئے غلے“ کیونکہ پہلی دفعہ تو بیچنے والے نے تولا ہوگا جیسا کہ عرف ہے۔ اب خریدار بھی اسے ماپ لے۔ اس باب کا مقصد یہ ہے کہ بیچنے والے کے ماپنے کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ خود بھی ماپنا چاہیے تاکہ اعتماد سے آگے بیچ سکے۔ حدیث میں باب کا یہ مقصد نہیں کہ اگر غلہ بغیر ماپے خریدا گیا ہو تو اسے قبضے میں لیے بغیر بیچنا جائز ہے۔ یہ اس لیے کہ دیگر روایات میں قبضے کی شرط عام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4608
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4609
´اندازہ لگا کر خریدا ہوا اناج اس کی جگہ سے منتقل کرنے سے پہلے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اناج خریدتے تھے، پھر آپ ایک شخص کو ہمارے پاس بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ اسے اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کر لے جہاں سے ہم نے خریدا ہے قبل اس کے کہ ہم اسے فروخت کریں۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4609]
اردو حاشہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس طرح بیع کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ اس مقصد کے لیے آپ نے آدمی بھی متعین کیے تھے جو لوگوں کو خریدی ہوئی چیز پہلی جگہ سے منتقل کیے بغیر فروخت کرنے سے روکتے تھے۔
(2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے ڈھیر کی اندازاً بیع جائز ہے، خواہ اس کے درست وزن یا مقدار کا علم نہ بھی ہو، تاہم یہ ضروری ہے کہ اس میں نہ تو ملاوٹ ہو اور نہ کوئی اور خرابی ہی ہو۔
(3) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فساد اور حرام بیوع کرنے والوں کی اصلاح اور اس ضمن میں ان کی تادیب ضروری ہے جیسا کہ حدیث: 4612 میں ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت کرنے والوں کی پٹائی کی جاتی تھی۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کے زریں دور کی بات ہے۔
(4) ”کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔“ تاکہ قبضہ محقق ہو جائے، نیز کچھ محنت بھی ہو جائے تاکہ منافع حاصل کرنے کا جواز بن سکے۔ (مزید دیکھیے حدیث: 4599۔ فائدہ2)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4609
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3845
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اناج خریدا وہ اسے قبضہ میں لیے بغیر فروخت نہ کرے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3845]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جُزاف:
یہ باب مفاعلہ جازف کا مصدر ہے،
اس لیے جیم پر کسرہ (زیر)
پڑھنا افصح ہے۔
اگرچہ زبر اور پیش بھی پڑھا گیا ہے اور یہ گزاف سے عربی بنایا گیا ہے۔
یعنی اندازہ سے لینا۔
فوائد ومسائل:
جس طرح اندازہ سے خریدی گئی اشیاء میں قبضہ ضروری ہے،
اس کے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے،
جمہور ائمہ کے نزدیک کیل واوزان سے لی گئی اشیاء کا بھی یہی حکم ہے۔
اور جمہور کے نزدیک ناپ اور تول والی اشیاء کے ڈھیر کو اندازا خریدنا جائز ہےوہاں اگر اشیاء کا باہمی تبادلہ ہے تو پھر اگر ایک جنس کی اشیاء ہیں اور ربو ٰ(سود)
الفضل کا (کمی و بیشی)
کا احتمال ہے تو پھر جائز نہیں ہے۔
اگلی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ناجائز خریدو فروخت کرنے والوں کو تعزیر لگانا درست ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3845
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3847
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کو دیکھا کہ جب وہ اناج کا ڈھیر خریدتے اور اس جگہ بیچ دیتے، تو انہیں مار پڑتی، حتیٰ کہ وہ اسے اپنے گھر منتقل کر لیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3847]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر ایک انسان نے کوئی چیز ناپ تول سے خریدی ہے اور آگے اسی طرح فروخت کرنی ہے تو اس کا دوبارہ ناپ تول کرنا ہوگا،
اور اگر ڈھیر خریدا ہے تو قبضہ کرنے کے بعد اس کو ڈھیر کی صورت میں بیچنا درست ہے۔
اگر ایک چیز ناپ تول کر لی ہے تو قبضہ کے بعد اس کو ڈھیر کی صورت میں بیچا جا سکتا ہے۔
اگر ڈھیر خریدا ہے،
تو اس کو ناپ تول کر کے دینا بھی جائز ہے،
لیکن اگر ایک آدمی نے ایک مال یا غلہ،
ناپ تول سے خریدا ہے اور وہ اسے دوسرے آدمی کو ناپ تول سے دینا چاہتاہے اور دوسرا آدمی پہلے تول یا ناپ کو دیکھ رہا ہے تو کیا پہلے ناپ تول کو کافی سمجھا جا سکتا ہے یا دوبارہ ناپ تول کرنا ہو گا؟ تو اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ ناپ یا تول دوبارہ کیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3847
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2137
2137. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پٹتے دیکھا جو غلے کا ڈھیر اندازے سے خریدتے، پھر اسی جگہ فروخت کرتے تاآنکہ وہ غلہ اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2137]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے نکلا کہ حاکم اسلام بیع فاسد پر سزا دے سکتا ہے۔
امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ جو چیز اندازے سے بن ناپ تول خریدی جائے اس کو قبضے سے پہلے بیچ سکتا ہے۔
اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2137
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2166
2166. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سےروایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم باہر سے آنے والے قافلوں کو آگے جا کر ملتے اور ان سے غلہ خریدتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس غلے کو فروخت کرنے سے منع فرمادیا تاآنکہ اسے منڈی میں پہنچا دیا جائے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری) بیان کرتے ہیں کہ ان کا قافلے والوں سے ملنا بازار کے اعلیٰ کنارے میں ہوتا تھا جیسا کہ حضرت عبیداللہ کی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ (اور وہ حدیث آگے مذکور ہے) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2166]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں جو مذکور ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ قافلہ والوں سے آگے جاکر ملتے اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ بستی سے نکل کر، یہ تو حرام اور منع تھا۔
بلکہ عبداللہ ؓ کا مطلب یہ ہے کہ بازار میں آجانے کے بعد اس کے کنارے پر ہم ان سے ملتے۔
کیوں کہ اس روایت میں اس امر کی ممانعت ہے کہ غلہ کو جہاں خریدیں وہاں نہ بیچیں اور اس کی ممانعت اس روایت میں نہیں ہے کہ قافلہ والوں سے آگے بڑھ کر ملنا منع ہے۔
ایسی حالت میں یہ روایت ان لوگوں کی دلیل نہیں ہوسکتی جنہوں نے قافلہ والوں سے آگے بڑھ کر ملنا درست رکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2166
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2167
2167. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگ بازار کے بلند کنارے میں غلہ خریدتے اور اسی جگہ فروخت کردیتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرمادیاحتیٰ کہ اسے وہاں سے نقل کرلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2167]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جب قافلہ بازار میں آجائے تو اس سے آگے بڑھ کر ملنا درست نہیں۔
بعض نے کہا بستی کی حد تک آگے بڑھ کر ملنا درست ہے۔
بستی سے باہرجاکر ملنا درست نہیں۔
مالکیہ نے کہا کہ اس میں اختلاف ہے، کوئی کہتا ہے کہ ایک میل سے کم آگے بڑھ کر ملنا درست ہے کوئی کہتا ہے کہ چھ میل سے کم پر، کوئی کہتا ہے کہ دو دن کی راہ سے کم پر۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2167
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2124
2124. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ اس بات سے منع کرتے تھے کہ غلہ جس وقت خریدا جائے اسی وقت وہیں فروخت کردیا جائے یہاں تک کہ اس پر پوراپورا قبضہ نہ کر لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2124]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث مرویہ میں کسی نہ کسی پہلو سے آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام ؓ کا بازاروں میں آنا جانا مذکور ہوا ہے۔
نمبر2119 میں بازاروں میں اور مسجد میں نماز باجماعت کے ثواب کے فرق کا ذکر ہے۔
حدیث نمبر2122میں آنحضرت ﷺ کا بازار قینقاع میں آنا اور وہاں سے واپسی پر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر پر جانا مذکو رہے جہاں آپ ﷺ نے اپنے پیارے نواسے حضرت حسن ؓ کو پیار کیا، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
الغرض بازاروں میں آنا جانا، معاملات کرنا یہ کوئی مذموم امر نہیں ہے۔
ضروریات زندگی کے لیے بہرحال ہر کسی کو بازار جائے بغیر گزارہ نہیں، حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد اسی امر کا بیان کرنا ہے۔
کیوں کہ بیع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔
اسی سلسلے کے مزید بیانات آگے آرہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2124
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2124
2124. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ اس بات سے منع کرتے تھے کہ غلہ جس وقت خریدا جائے اسی وقت وہیں فروخت کردیا جائے یہاں تک کہ اس پر پوراپورا قبضہ نہ کر لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2124]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں صحابۂ کرام ؓ کا بازار میں آنا جانا مذکورہے۔
اگرچہ اس میں بازار کی صراحت نہیں ہے لیکن اکثر طور پر غلہ وغیرہ بازار اور منڈی ہی میں فروخت ہوتا ہے،اس لیے بازار جانے کا جواز ثابت ہوا۔
(2)
یہ بھی پتہ چلا کہ خریدی ہوئی چیز کو قبضے سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔
ہم اس کی وضاحت آئندہ کریں گے۔
بإذن الله. (3)
کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ پر متعدد جاہلانہ اعتراضات کیے۔
ان میں سے ایک یہ تھا کہ رسول کم ازکم کوئی مافوق البشر ہستی ہونی چاہیے جو حوائج بشریہ (انسانی ضروریات)
سے بے نیاز ہو۔
کم از کم دنیا کے دھندوں سے آزاد اور تارک دنیا قسم کے لوگوں سے ہو۔
بازاروں میں آنا جانا، کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرنا ان کے نزدیک شان نبوت کے خلاف تھا۔
قرآن کریم نے ان کا اعتراض بایں الفاظ نقل کیا ہے:
﴿مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ﴾ ”یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتاپھرتا ہے؟“ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کا جواب بایں اسلوب دیا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ﴾ ”ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔
“ یعنی ان کفار مکہ کو خوب علم ہے کہ سیدنا نوح،سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰ ؑ سب کے سب انسان ہی تھے۔
ضروریات زندگی اور حوائج بشریہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور وہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کھاتے پیتے بھی تھے اور کسب معاش یا خریدوفروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے،ان سب باتوں کے باوجود لوگ انھیں رسول تسلیم کرتے تھے۔
(4)
اس سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا بازاروں میں چلنا پھرنا بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں۔
بازاروں میں جس چیز کی ممانعت ہے اس کا ذکر آئندہ باب میں آرہا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2124
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2126
2126. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو اس وقت تک اسے فروخت نہ کرے جب تک اس کو پوری طرح قبضے میں نہ لے لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2126]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص غلہ خریدے اسے آگے نہ بیچے یہاں تک کہ اسے پوراپورا ماپ کرکےلےلے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3839(1525)
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ ماپ کردینا بائع کا کام ہے۔
مذکورہ عنوان بایں طور بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں طعام کی بیع سے ممانعت ہے یہاں تک کہ قبضہ ہو اور قبضے کے بعد جب اسے آگے فروخت کرے گا تو ماپ کرکے دینا اس،یعنی فروخت کرنے والے کی ذمہ داری ہوگی۔
(عمدة القاري: 410/8)
بہر حال وزن یا ماپ کی ذمہ داری فروخت کرنے والے پر ہے خریدار پر نہیں۔
اگر خود وزن کرکے نہیں دیتا تو وزن کرنے کی اجرت برداشت کرے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2126
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2131
2131. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اندازے سے غلہ خریدنے والوں کو اس بات پر پٹتے دیکھا ہے کہ وہ اس پر قبضہ کر کے اپنے گھروں میں لانے سے پہلے اسے(آگے)فروخت کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2131]
حدیث حاشیہ:
(1)
لغوی طور پر اشیائے ضرورت کو فروخت سے روک لینا احتکار کہلاتا ہے۔
شرعی طورپر احتکار یہ ہے کہ نرخ بڑھنے کے انتظار میں اشیائے ضرورت کو روک لینا،انھیں فروخت نہ کرنا جبکہ عوام کو ان کی شدید ضرورت ہو اور جمع کرنے والا اس سے مستغنی ہو۔
لیکن اگر کوئی شخص اس غلے کو ان ایام میں خرید کر ذخیرہ کرے جن میں یہ سستا ہویا اگر کوئی مہنگائی کے وقت میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے خریدتا ہے یا اسے خرید کر فوراً فروخت کردیتا ہے تو یہ احتکار نہیں اور نہ ایسا کرنا حرام ہی ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے احتکار کا جواز پیش کیا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں غلے کو اپنے گھر یا دکان میں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اگر احتکار حرام ہوتا تو آپ یہ حکم نہ دیتے بلکہ خریدتے ہی فروخت کرنے کا حکم دے دیتے۔
شاید ان کے نزدیک وہ حدیث ثابت نہیں ہے جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی وہی کرتا ہے جو گناہ گار ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4122(1605)
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے لوگون پر ان کا غلہ ذخیرہ کرلیا اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ اور افلاس میں مبتلا کردے گا۔
"(سنن ابن ماجہ،التجارات،حدیث: 2155)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 4/440)
لیکن غلے کو صرف گھر منتقل کرنا شرعی احتکار نہیں،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان کے نزدیک ذخیرہ اندوزی مخصوص حالات میں، مخصوص شرائط کے ساتھ منع ہے،اس کی مذمت میں متعدد احادیث مروی ہیں۔
موجودہ حالات میں ذخیرہ اندوزی ایک سنگین جرم ہے جبکہ لوگ اس کے ضرورت مندہوں اور وہ قحط سالی کا شکار ہوں۔
اگر لوگوں کو اشیائے ضرورت بہ سہولت دستیاب ہیں تو غلہ خرید کر ذخیرہ کر لینا منع نہیں۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2131
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2133
2133. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو اسے فروخت نہ کرے تاآنکہ اس پر قبضہ کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2133]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہ حدیث احتکار کے جواز کے لیے پیش کی ہے جس کی قبل ازیں وضاحت ہو چکی ہے۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ احتکار خوراک اور غیر خوراک ہر چیز میں منع ہے یا صرف انسانوں اور حیوانوں کی خورو نوش کی اشیاء میں۔
ہمارے نزدیک کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی منع ہے بشرطیکہ لوگوں کو دستیاب نہ ہو اور وہ اس کے محتاج بھی ہوں لیکن وہ شخص عام انسانوں کے لیے مہنگا کرنا چاہتا ہو۔
اگرچہ بعض احادیث میں لفظ طعام کی صراحت ہے لیکن جن احادیث میں مطلق طور پر احتکار کی ممانعت ہے انھیں مقید احادیث پر محمول کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جسے روک رکھنا لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہو احتکار میں شامل ہے،خواہ وہ سونا ہو یا کپڑا یا غلہ وغیرہ۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت سعید بن مسیّب ؒنے جب احتکار کے متعلق حدیث بیان کی تو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں احتکار کرتے ہیں؟تو کہنے لگے کہ اس حدیث کے راوی حضرت معمر ؓ بھی احتکار کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4122(1805)
یہ دونوں زیت،یعنی تیل کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے لیکن یہ اس وقت جب بازار میں عام دستیاب تھا کیونکہ جب بازار میں ضرورت کی اشیاء نایاب ہوں تو ایک صحابی کا ایسے حالات میں ذخیرہ اندوزی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2133
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2136
2136. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اسے پورا وصول نہ کر لے اسے آگے فروخت نہ کرے۔“ (راوی حدیث) اسماعیل بن ابی اویس نے یہ اضافہ کیا ہے۔ ”جو کوئی غلہ خریدے اسے آگے فروخت نہ کرے حتی کہ اسے اپنے قبضے میں لے لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2136]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دونوں احادیث میں خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے قبل آگے فروخت کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے۔
جو چیز موجود نہ ہو اسے فروخت کرنے کی ممانعت کا ذکر ان احادیث میں نہیں ہے لیکن یہ ممانعت پہلے جز میں داخل ہے کیونکہ جو چیز پاس موجود نہ ہو اسے فروخت کرنا قبضے سے پہلے فروخت کے مترادف ہے۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ کے واقعے میں اس کی صراحت ہے۔
انھوں نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
اللہ کے رسول! میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور وہ مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے،میں اس کا سودا کرلیتا ہوں اور اسے وہ چیز بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں؟آپ نے فرمایا:
”جو چیز تمھارے پاس موجود نہ ہو اسے فروخت نہ کرو۔
“ (مسند أحمد: 402/3)
اس سے معلوم ہوا کہ ایسی چیز کی خریدو فروخت جائز نہیں جو فروخت کے وقت بیچنے والےکی ملکیت میں نہ ہو۔
(2)
واضح رہے کہ بعض اوقات مشتری کوئی چیز خریدتا ہے اور اس کا وزن کرنے کے بعد بائع کے پاس ہی رہنے دیتا ہے،یعنی اپنے قبضے میں نہیں لیتا،ایسی چیز کی آگے فروخت جائز نہیں۔
امام بخاری نے اسماعیل بن ابو اویس کے اضافے سے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 442/4)
حضرت ابن عباس ؓسے مروی حدیث میں چونکہ غلے کا ذکر تھا،اس لیے انھوں نے قیاس کیا کہ ہر چیز حکم میں غلے کی مانند ہے۔
دراصل انھیں حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی حدیث کا علم نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرو۔
“ (مسند أحمد: 402/3)
اسی طرح حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سودے کو ایسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرمایا جہاں اسے خریدا گیا ہو یہاں تک کے لوگ اسے اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔
(المستدرك للحاکم: 40/2)
بہر حال خریدی ہوئی چیز غلہ ہویا اس کے علاوہ کوئی اور چیز،قبضے سے پہلے اسےآگے فروخت کرنا منع ہے۔
ہماے ہاں کھل بنولہ خرید کر اسے کارخانے ہی میں رہنے دیا جاتا ہے۔
مالک کو قیمت ادا کرکے اس سے پرچی لےلی جاتی ہے، پھر اس پرچی کو آگے فروخت کردیا جاتا ہے ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2136
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2137
2137. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پٹتے دیکھا جو غلے کا ڈھیر اندازے سے خریدتے، پھر اسی جگہ فروخت کرتے تاآنکہ وہ غلہ اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2137]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبضے میں لینے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر خریدى ہوئی چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہو جیسا کہ درہم ودینار یا بازار کا سودا سلف وغیرہ تو اسے ہاتھ میں لینے سے قبضہ مکمل ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی جائیداد وغیرہ منقولہ ہے تو اس کا قبضہ یہ ہے کہ مالک اس سے دست برادر ہوجائے، مثلاً:
زمین یا باغ کا قبضہ یہ ہے کہ مالک اسے خریدار کے حوالے کردے اور اگر کوئی چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے تو اس کا قبضہ یہ ہے کہ خریدار اسے ایسی جگہ منتقل کردے جہاں مالک کا عمل دخل نہ ہوجیسا کہ غلہ اور حیوان کی خریدوفروخت کے وقت ہوتا ہے۔
امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر بیع کو ماپ تول کر مالک کے پاس ہی رہنے دیا جائے تو اسے شرعی قبضہ نہیں کہا جائے گا یہاں تک کہ مشتری اسے ایسی جگہ منتقل کردے جہاں مالک کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
(2)
اس عنوان اور پیش کردہ حدیث کا یہی مقصد ہے کہ خریدی ہوئی چیز،خواہ ماپ تول کرلی جائے یا اندازے سے اس پر قبضے سے پہلے اسے فروخت کرنا صحیح نہیں جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں:
جو چیز ماپ تول کے بغیر صرف اندازے سے خریدی جائے اسے قبضے کے بغیر بھی آگے فروخت کیا جاسکتا ہے۔
یہ موقف حدیث کے خلاف تھا، اس لیے تردید ضروری تھی۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم وقت خلاف شرع خریدوفروخت کرنے پر سزا دے سکتا ہے۔
حاکم کو چاہیے کہ وہ منڈیوں میں اپنے کارندے تعینات کرے جو خلاف شرع کاموں کی نگہداشت کریں۔
(فتح الباري: 444/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2137
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2167
2167. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگ بازار کے بلند کنارے میں غلہ خریدتے اور اسی جگہ فروخت کردیتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرمادیاحتیٰ کہ اسے وہاں سے نقل کرلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2167]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے باہر سے آنے والے قافلوں کے استقبال کے جواز اور عدم جواز کی حدود کا تعین کیا ہے۔
بعض حضرات کے نزدیک ممنوع استقبال شہر کے داخلے تک ہے، خواہ منڈی میں آئے یا نہ آئے۔
اصل بات یہ ہے کہ قافلے والے جب شہر میں آئیں اور منڈی کا بھاؤ معلوم کرنا ممکن ہوجائے تو اس وقت استقبال کرکے ان سے غلہ خریدا جاسکتا ہے کیونکہ شہر سے باہر رہتے ہوئے اس وقت منڈی کے بھاؤ کا پتہ کرنا ناممکن تھا، اس لیے منع کیا گیا۔
اگر شہر میں داخل ہونے کے بعد وہ بھاؤ کا پتہ نہ کریں تو یہ ان کا اپنا قصور ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے ممنوع استقبال کی ابتدا بازار سے خروج کو قرار دیا ہے۔
اگر منڈی میں داخل ہوجائیں تو ان کا استقبال منع نہیں اور منڈی سے باہر استقبال منع ہے اگرچہ شہر میں داخل ہی کیوں نہ ہوجائیں الغرض جہاں آگے جاکر آنے والے قافلوں سے غلہ خریدنا جائز ہے وہ بازار کا آخری کنارہ ہے اور جہاں خریدنا منع ہے وہ بازار سے خروج ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اسی جگہ خرید کر مال فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایسا استقبال منع نہیں۔
ممنوع استقبال منڈی سے باہر ہے اور انتہا کی کوئی حد نہیں۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2167
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6852
6852. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پیٹا جاتا تھا جو غلہ اندازے سے خریدتے اور دوسری جگہ منتقل کیے بغیر وہیں فروخت کر دیتے تھے۔ ہاں، اگر وہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتے، پھر فروخت کرتے تو کچھ سزا نہ ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6852]
حدیث حاشیہ:
(1)
تجارت کا یہ اصول ہے کہ غلہ وغیرہ جب خریدا جائے تو اس پر قبضہ کیا جائے۔
قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے فروخت کرنے کی اجازت ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مشتری خرید کردہ چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتا تھا، اس پر انھیں مار پڑتی تھی۔
یہ مار بطور تنبیہ اور تعزیر تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ تنبیہ کے طور پر بدنی سزا بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ چہرے پر نہ مارا جائے اور مار سے نشان وغیرہ نہ پڑیں۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جو انسان بھی شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے غلط کاروبار کرتا ہے اسے بدنی سزا دی جا سکتی ہے، نیز بازار میں ایک محتسب کا ہونا ضروری ہے جو ایسے لوگوں پر نظر رکھے، پھر جو لوگ منع کرنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں انھیں سزا دی جائے۔
(فتح الباري: 222/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6852