● صحيح البخاري | 2491 | عبد الله بن عمر | من أعتق شقصا له من عبد أو شركا أو قال نصيبا كان له ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق |
● صحيح البخاري | 2553 | عبد الله بن عمر | من أعتق نصيبا له من العبد فكان له من المال ما يبلغ قيمته يقوم عليه قيمة عدل وأعتق من ماله وإلا فقد عتق منه |
● صحيح البخاري | 2522 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم العبد عليه قيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق |
● صحيح البخاري | 2521 | عبد الله بن عمر | من أعتق عبدا بين اثنين إن كان موسرا قوم عليه ثم يعتق |
● صحيح البخاري | 2503 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في مملوك وجب عليه أن يعتق كله إن كان له مال قدر ثمنه يقام قيمة عدل ويعطى شركاؤه حصتهم ويخلى سبيل المعتق |
● صحيح البخاري | 2523 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال يقوم عليه قيمة عدل فأعتق منه ما أعتق |
● صحيح البخاري | 2524 | عبد الله بن عمر | من أعتق نصيبا له في مملوك أو شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ قيمته بقيمة العدل فهو عتيق |
● صحيح البخاري | 2525 | عبد الله بن عمر | وجب عليه عتقه كله إذا كان للذي أعتق من المال ما يبلغ يقوم من ماله قيمة العدل يدفع إلى الشركاء أنصباؤهم ويخلى سبيل المعتق |
● صحيح مسلم | 3770 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق |
● صحيح مسلم | 4329 | عبد الله بن عمر | من أعتق عبدا بينه وبين آخر قوم عليه في ماله قيمة عدل لا وكس ولا شطط ثم عتق عليه في ماله إن كان موسرا |
● صحيح مسلم | 4325 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق |
● صحيح مسلم | 4326 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له من مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه فإن لم يكن له مال عتق منه ما عتق |
● صحيح مسلم | 4327 | عبد الله بن عمر | من أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال قدر ما يبلغ قيمته قوم عليه قيمة عدل إلا فقد عتق منه ما عتق |
● صحيح مسلم | 4330 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد عتق ما بقي في ماله إذا كان له مال يبلغ ثمن العبد |
● جامع الترمذي | 1347 | عبد الله بن عمر | من أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه فهو عتيق من ماله |
● جامع الترمذي | 1346 | عبد الله بن عمر | من أعتق نصيبا أو قال شقصا أو قال شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق |
● سنن أبي داود | 3943 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا من مملوك له عليه عتقه كله إن كان له ما يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال عتق نصيبه |
● سنن أبي داود | 3940 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في مملوك أقيم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وأعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق |
● سنن أبي داود | 3946 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد عتق منه ما بقي في ماله إذا كان له ما يبلغ ثمن العبد |
● سنن أبي داود | 3947 | عبد الله بن عمر | إذا كان العبد بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه إن كان موسرا يقوم عليه قيمة لا وكس ولا شطط ثم يعتق |
● سنن النسائى الصغرى | 4702 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد أتم ما بقي في ماله إن كان له مال يبلغ ثمن العبد |
● سنن النسائى الصغرى | 4703 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في مملوك كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العبد فهو عتيق من ماله |
● سنن ابن ماجه | 2528 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد أقيم عليه بقيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم إن كان له من المال ما يبلغ ثمنه وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 518 | عبد الله بن عمر | من اعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فاعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق |
● بلوغ المرام | 1222 | عبد الله بن عمر | من أعتق شركا له في عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة عدل فأعطي شركاؤه حصصهم وعتق عليه العبد وإلا فقد عتق منه ما عتق |
● مسندالحميدي | 686 | عبد الله بن عمر | أيما عبد كان بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه، فإن كان موسرا فإنه يقوم عليه بأعلى القيمة |
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3770
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عتق:
عتق کا لفظ مختلف معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے،
کرم،
جمال،
شرف ونجابت،
آزادی اور حریت،
اور جب کہیں أَعْتَقَ العَبدَ فلان تو معنی ہوگا،
اس نے غلام کو آزاد کر دیا۔
(2)
شرك حصہ۔
فوائد ومسائل:
اسلام نے جنگی قیدیوں کو پہلے سے موجود اور ازواج پذیر،
نظریہ کے مطابق ان کی بہتری اور تعلیم تربیت کی خاطر ان کو غلام بنانے کی اجازت دی ہے لیکن ان کو یونانیوں رومیوں اور مغربی اقوام کے دستور کے مطابق ڈھورڈنگروں کی طرح نہیں رکھا اور ان کو شرف انسانیت سے محروم نہیں کیا،
ان کو شرف انسانی بخشا اور ان کے حقوق بیان کیے،
بلکہ ان کو بھائی قرار دیا،
ان سے حسن سلوک کی تعلیم دی،
آپﷺ نے فرمایا:
(أَكْرِمُوهُمْ كَرَامَةَ أَوْلادِكُمْ)
ان کو اپنی اولاد کی طرح عزت و شرف دو۔
اور فرمایا:
کوئی انسان عبدی (میراغلام)
امتی (میری لونڈی)
نہ کہے اور مملوک اپنے آقا کو ربی نہ کہے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری سانس کے وقت فرمایا:
(الصَّلاَةَ وما مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)
نماز اور اپنے مملوکوں کا دھیان رکھنا،
اس لیے مختلف طریقوں سے ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دلائی،
اس اصول کے مطابق اگر کوئی مشترکہ غلام میں اپنا حصہ آزاد کرتا ہے اور اس کو باقی حصہ آزاد کرنے کی توفیق حاصل ہے تو اس کو یہی حکم دیا کہ وہ باقی حصہ بھی آزاد کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3770
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 518
´مشترکہ غلام کی آزادی کا بیان`
«. . . 244- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من أعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہو گا جو کہ آزاد ہوا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 518]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2522، ومسلم 1501، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
➋ جس شخص نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو یہ غلام اس شخص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا لیکن اگر کسی اور شخص کا حصہ باقی رہا تو یہ غلام دوسرے شخص کا غلام ہی رہے گا اِلا یہ کہ وہ بھی آزاد کردے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور اس غلام سے کہا: جائے گا کہ وہ کوشش (مال جمع) کرکے اپنے آپ کو آزاد کروالے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري: 2527، صحيح مسلم: 1503،]
➍ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا، ان کے علاوہ اس کا اور کوئی مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے پھر قرعہ اندازی کرکے دو غلاموں کو آزاد کردیا اور چار کو غلامی میں برقرار رکھا۔ آپ نے (اس طریقے سے) آزاد کرنے والے شخص کی مذمت فرمائی۔ [صحيح مسلم: 1668، دارالسلام: 4335]
معلوم ہوا کہ مرنے والا صرف ایک ثلث (ایک تہائی) کی وصیت کر سکتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 244
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4702
´مال لگائے بغیر تجارت میں حصہ دار بننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایک غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا تو جتنا حصہ باقی ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت بھر مال ہو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4702]
اردو حاشہ:
اس روایت کی مناسبت اگلے باب سے ہے، الا یہ کہ اس باب کے معنیٰ یہ ہوں کہ شراکت مال، یعنی روپے پیسے کے علاوہ اور چیزوں میں بھی ہو سکتی ہے، مثلاً: غلام۔ پھر یہ حدیث اگلے باب سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4702
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3940
´جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3940]
فوائد ومسائل:
آزاد کر نے والے کو ترغیب وتشویق دی گئی ہے کہ اگر وہ یہ مالی بوچھ برداشت کرسکتا ہے تو کر لے، اس میں بڑی فضیلت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3940
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2528
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انصاف کے ساتھ قیمت لگانے مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ کیا جائے کہ اس زمانے میں اس جگہ یہ غلام کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتا ہے مثلاً:
اگر وہ آدھے غلام کا مالک تھا اور غلام کی قیمت کا اندازہ سو دینار ہے تو پچاس دینار اپنے دوسرے شریک یا شریکوں کو ادا کرکے باقی آدھا غلام بھی خرید کر آزاد کردے۔
(2)
مذکورہ مثال میں اگرآزاد کرنے والا پچاس دینار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ غلام آدھا آزاد سمجھا جائے گا اورآدھا غلام لہٰذا اگروہ قتل ہوجائے تو آدھی دیت (پچاس اونٹ)
لی جائے گئی اور غلام کی قیمت سے آدھی رقم بھی لی جائے گئی۔
اور جن معاملات میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں تواسے غلام ہی تصور کیا جائے گا جس طرح نامکمل ادائیگی کرنے والے مکاتب کا حکم ہے۔
واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2528
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:686
686- سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو غلام دو آدمیوں کی ملکیت ہوان دونوں میں سے کوئی ایک شخص اپنے حصے کو آزاد کر دے۔ اگر وہ شخص خوشحال ہو، تو اس غلام کی منصفانہ طور پر کسی کمی بیشی کے بغیر مناسب قیمت لگائی جائے گی اور پھر وہ شخص اپنے ساتھی کو اس کے حصے کی تاوان کی رقم ادا کرے گا اوراس غلام کو (مکمل طور پر) آزاد کردے گا۔“ سفیان کہتے ہیں:عمر و کو اس روایت کے اس طرح ہونے میں شک ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:686]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غلامی تقسیم ہوسکتی ہے۔ ایک غلام کئی لوگ مل کر خرید تے تھے۔ اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح قیمت تجویز کی جائے پھر اگر آزاد کر نے والا مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے اس طرح وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہوگا۔ اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اس کا حصہ آزاد ہوگا مکمل طور پر آزاد نہیں ہوگا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 687
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4329
حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسا غلام آزاد کیا، جو اس کے اور دوسرے فرد کے درمیان مشترک تھا، تو اس کی خاطر، اس کے مال سے منصفانہ ٹھیک ٹھیک قیمت لگائی جائے گی، نہ کم نہ زیادہ، پھر اس کی طرف سے اس کے مال سے آزاد ہو جائے گا، اگر آزاد کرنے والا مالدار ہو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4329]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وكس:
نقصان و خسارہ۔
(2)
شطط:
ظلم و جور یا زیادتی و اضافہ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4329
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2491
2491. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا (مال) ہو جو منصفانہ قیمت کے مطابق اس غلام کی قیمت کے برابر ہوسکتا ہوتو وہ غلام آزاد ہے، بصورت دیگر اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کردیا۔“ (راوی حدیث) ایوب نے کہا: ”اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کیا ہے۔“ مجھے معلوم نہیں کہ نافع کا قول ہے یا نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2491]
حدیث حاشیہ:
یعنی سارے غلام کی غلامی کی حالت میں قیمت لگائیں گے یعنی جو حصہ آزاد ہوا اگر وہ بھی آزاد نہ ہوتا تو اس کی قیمت کیا ہوتی۔
اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔
عینی نے اس مسئلہ میں چودہ مذہب بیان کئے ہیں۔
لیکن امام احمد ؒ اور شافعی ؒ اور اسحاق ؒنے اسی حدیث کے موافق حکم دیا ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں دوسرے شریک کو اختیار رہے گا خواہ اپنا حصہ بھی آزاد کردے خواہ غلام سے محنت مشقت کراکر اپنے حصہ کے دام وصول کرے۔
خواہ اگر آزاد کرنے والا مال دار ہو تو اپنے حصے کی قیمت اس سے بھرلے۔
پہلی اور دوسری صورت میں غلام کا ترکہ دونوں کو ملے گا اور تیسری صورت میں صرف آزاد کرنے والے کو۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ غلام کی ٹھیک ٹھیک قیمت لگاکر اس کے جملہ مالکوں پر اسے تقسیم کردیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2491
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2524
2524. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے ایک اور روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص نے مشترکہ غلام سے اپنا حصہ آزاد کردیا، اب اگر اس کامال اس (غلام) کی منصفانہ قیمت کو پہنچ جاتا ہے تو وہ آزاد ہوگا۔“ نافع نے کہا: اگر مال نہیں ہے تو اتنا حصہ آزاد ہوگا جس قدر اس نے آزاد کیاہے۔ ایوب راوی کا کہنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات نافع نے اپنی طرف سے کہی ہے یا حدیث کاحصہ ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2524]
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ عبارت والا فقد عتق منه ما عتق حدیث میں داخل ہے یا نافع کا قول ہے۔
مگر اور راویوں نے جیسے عبیداللہ اور مالک وغیرہ ہیں، اس فقرے کو حدیث میں داخل کیا ہے اور وہی راجح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2524
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2553
2553. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو کہ کسی عادل کی قیمت لگانے کے مطابق اس کی قیمت اداکی جاسکے تو اس کے مال سے پورا غلام آزاد کیاجائے، بصورت دیگر جتنا اس نے آزاد کیا اتنا ہی آزاد ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2553]
حدیث حاشیہ:
صرف وہی حصہ اس کی طرف سے آزاد ہورہے گا۔
اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں عبد کا لفظ غلام کے لیے آیا ہے۔
پس مجازاً غلام پر عبد بولا جاسکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2553
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2523
2523. حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا، پھر اگر اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچ جائے تو غلام کو مکمل طور پر آزاد کروانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اوراگر اس کے پاس اتنا مال نہیں تو غلام کی عادلانہ قیمت لگائی جائےگی، پھر اس سے اتنا حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2523]
حدیث حاشیہ:
اس مختصر روایت کو امام بیہقی ؒ نے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
”جس نے مشترک غلام سے اپنا حصہ آزاد کیا تو وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا۔
“ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 277/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2523
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2525
2525. حضرت ابن عمر ؓ سے مزید روایت ہے کہ وہ شرکاء کے درمیان مشترک غلام یا لونڈی کے متعلق یہ فتویٰ دیتے تھے کہ ان میں سے کسی نے اپنا حصہ آزاد کردیاتو اس پر واجب ہے کہ وہ پورا غلام آزاد کرے، بشرط یہ کہ آزادکرنے والے کے پاس اتنا مال ہوجو اس کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اس صورت میں غلام کی عادلانہ قیمت تجویز کی جائے گی اور شرکاء کو ان کے حصے حوالے کردیے جائیں گے (ان کے حصوں کے مطابق قیمت ادا کردی جائے گی۔) اورآزاد شدہ غلام کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا۔ (اسے آزاد کردیاجائے گا۔)حضرت عمر ؓ اس فتوےکی بنیاد نبی کریم ﷺ کی حدیث قرار دیتے تھے۔ اس روایت کو لیث، ابن ابی ذئب، ابن اسحاق، جویریہ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ نے حضرت نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2525]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے بیان کردہ مسئلے میں بہت اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ آیا غلام کی آزادی قابل تقسیم ہے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ آزادی کا تجزیہ ہو سکتا ہے۔
جب غلامی کا دور تھا تو کئی آدمی مل کر ایک غلام خرید لیتے تھے اب اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کے متعلق ضابطہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح اور عادلانہ قیمت تجویز کی جائے پھر اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے، اس صورت میں وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو گا۔
اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اسی کا حصہ آزاد ہو گا، مکمل طور پر آزاد نہیں ہو گا۔
اس طرح اس کی آزادی تقسیم ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزادی تقسیم نہیں ہو سکتی بلکہ ایک حصہ آزاد کرنے سے وہ مکمل آزاد ہو جائے گا۔
اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو اسے باقی حصوں کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا۔
اگر صاحب حیثیت نہیں ہے تو غلام کو محنت مزدوری پر مجبور کیا جائے گا۔
اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو اور غلام بھی محنت مزدوری کے قابل نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق آزادی قابل تجزیہ ہے اور غلام کا کچھ حصہ آزاد اور کچھ حصہ غلام ہو سکتا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔
امام بخاری ؒ نے آئندہ باب میں اس کا مزید حل پیش فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2525