سفیان نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے اور انہوں نے اپنے والد (قاسم) سے روایت کی، انہوں نے کہا: عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا آپ نے فلانہ بنت حکم کو نہیں دیکھا؟ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دیں تو وہ (اس کے گھر سے) چلی گئی۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اس نے برا کیا۔ عروہ نے پوچھا: کیا آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قول نہیں سنا؟ تو انہوں نے جواب دیا: دیکھو! اس کو بیان کرنے میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں، فاطمہ کے حق میں یہ بات بیان کرنا بہتر نہیں ہے۔ یعنی (مطلقہ ثلاثہ کے لیے) نہ رہائش ہے اور نہ خرچہ۔ حضرت عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا۔ کیا آپ کو حکم کی فلاں بیٹی کی حرکت کا علم ہے؟ اس کے خاوند نے اسے طلاق بتہ دے دی تو وہ اس کے گھر سے چلی گئی۔ تو انہوں نے کہا، بہت برا کام کیا، عروہ نے پوچھا۔ کیا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بات نہیں سنی؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ ہاں، اس کے حق میں یہ بیان کرنا بہتر نہیں ہے۔ (کیونکہ اگر میں اس کی وجہ بیان کروں گی، تو اسے تکلیف ہو گی۔)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3720
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا موقف یہ تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے خاوند کے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت خاص اسباب کی بنا پر تھی، اس لیے مخصوص حالات کی بات کو عام نہیں کیا جاسکتا اور اگر فاطمہ یہ حدیث بیان کریں گی تو ہمیں ان حالات سے پردہ اٹھانا پڑے گا جو ان کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ موقف درست نہیں کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اندرکوئی قابل اعتراض بات نہ تھی جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد ج5، ص538 تفصیل سے لکھا ہے۔