حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا شبابة بن سوار ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس ، قال: " كان للنبي صلى الله عليه وسلم تسع نسوة، فكان إذا قسم بينهن لا ينتهي إلى المراة الاولى، إلا في تسع، فكن يجتمعن كل ليلة في بيت التي ياتيها "، فكان في بيت عائشة، فجاءت زينب، فمد يده إليها، فقالت: هذه زينب، فكف النبي صلى الله عليه وسلم يده فتقاولتا، حتى استخبتا واقيمت الصلاة، فمر ابو بكر على ذلك فسمع اصواتهما، فقال: اخرج يا رسول الله، إلى الصلاة واحث في افواههن التراب، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت عائشة: الآن يقضي النبي صلى الله عليه وسلم صلاته فيجيء ابو بكر، فيفعل بي ويفعل، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم، صلاته اتاها ابو بكر، فقال لها قولا شديدا، وقال: اتصنعين هذا.حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حدثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعُ نِسْوَةٍ، فَكَانَ إِذَا قَسَمَ بَيْنَهُنَّ لَا يَنْتَهِي إِلَى الْمَرْأَةِ الْأُولَى، إِلَّا فِي تِسْعٍ، فَكُنَّ يَجْتَمِعْنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي بَيْتِ الَّتِي يَأْتِيهَا "، فَكَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَجَاءَتْ زَيْنَبُ، فَمَدَّ يَدَهُ إِلَيْهَا، فقَالَت: هَذِهِ زَيْنَبُ، فَكَفَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَتَقَاوَلَتَا، حَتَّى اسْتَخَبَتَا وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ عَلَى ذَلِكَ فَسَمِعَ أَصْوَاتَهُمَا، فقَالَ: اخْرُجْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَى الصَّلَاةِ وَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت عَائِشَةُ: الْآنَ يَقْضِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ فَيَجِيءُ أَبُو بَكْرٍ، فَيَفْعَلُ بِي وَيَفْعَلُ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَاتَهُ أَتَاهَا أَبُو بَكْرٍ، فقَالَ لَهَا قَوْلًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَتَصْنَعِينَ هَذَا.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، جب آپ ان میں باری تقسیم فرماتے تو پہلی باری والی بیوی کے پاس نویں رات ہی پہنچتے۔ وہ سب ہر رات اس (بیوی کے) گھر میں جمع ہو جاتی تھیں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا آئیں تو آپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف پھیلایا۔ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: یہ زینب ہیں آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا، اس پر ان دونوں میں تکرار ہو گئی حتی کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، اور (اسی دوران میں) نماز کی اامت ہو گئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے ان کی آوازیں سنیں تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نماز کے لیے تشریف لائیے اور ان کے منہ میں مٹی ڈالیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کریں گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آئیں گے وہ مجھے ایسے ایسے (ڈانٹ ڈپٹ) کریں گے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی، ابوبکر رضی اللہ عنہ ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کے پاس آئے اور انہیں سخت سرزنش کی۔ اور کہا: کیا تم ایسا کرتی ہو؟
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان میں باری تقسیم کرتے تو پہلی باری والی بیوی کے پاس نوویں رات پہنچتے۔ اور وہ سب ہر رات اس بیوی کے ہاں اکٹھی ہو جاتیں، جس کی باری ہوتی تھی، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں تھے (ان کی باری تھی)، تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، یہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ تو دونوں میں تکرار ہو گئی، حتی کہ شور پیدا ہو گیا، اور نماز کی اقامت ہو گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے اور انہوں نے دونوں کی آوازیں سن لیں تو عرض کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز کے لیے تشریف لائیے، اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دیجیے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگیں (دل میں) ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کریں گے تو ابوبکر ان کے ساتھ آ جائیں گے اور مجھے ہی سرزنش و توبیخ کریں گے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کر لی تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہیں سخت سرزنش کی اور کہا: کیا تم یہ حرکت کرتی ہو؟
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3628
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: اِسْتَخَبَتَا: سخب ہے شوروشرابہ، آوازوں کا ٹکراو۔ فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے ہیں، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی شوہر دیدہ بیوی تھی جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں جبکہ ان کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی شادی کی۔ ان کی وفات کے بعد 10نبوت کے بعد حضرت سودہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی کیونکہ امور خانہ داری میں دقت پیش آرہی تھی۔ پھرہجرت مدینہ کے بعد جب اسلام پھیلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی ضرورتوں کے تحت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف خاندانوں سے قریبی مراسم قائم ہوں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست وبازو بنیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کے تمام حالات امت کے سامنے آ جائیں اور ازواج کے ذریعہ عورتوں میں دین کی اشاعت وترویج ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قبائل کی شوہر دیدہ عورتوں سے، ان کی دلجوئی اور ان کے خاندانوں کی انسيت ومحبت حاصل کرنے کے لیے مختلف اوقات میں نکاح کیے، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پھر 3 ہجری میں حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور اسی سال حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی جو کہ تین ماہ زندہ رہیں۔ پھر ان کے بعد ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور پھر زینب بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے، ان کے بعد ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے، پھر جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پھر صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پھر آخر میں میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی شادی جنسی ہوس پوری کرنے کے لیے نہیں کی، کیونکہ اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جنس پرست ہوتے تو جوانی میں چالیس سال کی بیوہ کے ساتھ شادی کر کے جوانی اور ادھیڑ عمر کے پچیس سال اس کی رفاقت میں نہ گزارتے، آپ پرباری فرض نہ تھی اس کے باوجود آپ نے باری مقرر کی اور اس کی پابندی کی، عام طور پر جس بیوی کی باری ہوتی تمام ازواج مغرب کے بعد اس کے ہاں جمع ہوجاتیں، ایک دن یہ عجیب واقعہ پیش آ گیا کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے (کیونکہ چراغ کا رواج عام نہ تھا) آپ نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آمد پر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن انہوں نے بتایا زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا آ چکی ہیں، اس لیے ان کی موجودگی محبت وپیار کا اظہار مناسب نہیں ہے۔ یا زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف ہاتھ بڑھایا یہ سمجھ کر کہ وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی وہ تو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اورآج باری میری ہے۔ اس پر باہمی تکرارہو گیا۔ جس سے آوازیں بلند ہو گئیں۔ اور یہ شور جاری تھا کہ نماز عشاء کا وقت ہو گیا اور اسی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ہوا انہوں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کوسختی سے روک دیں اور نماز کے لیے تشریف لائیں۔ پھر نماز کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اندیشہ کے مطابق انہیں جا کر سرزنش وتوبیخ کی۔