صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
54. باب كَوْنِ الإِسْلاَمِ يَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ وَكَذَا الْهِجْرَةُ وَالْحَجُّ:
54. باب: اسلام، ہجرت، اور حج پہلے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔
Chapter: Islam destroys that which came before it, as do Hijrah (Emigration) and Hajj
حدیث نمبر: 321
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى العنزي وابو معن الرقاشي وإسحاق بن منصور كلهم، عن ابي عاصم واللفظ لابن المثنى، حدثنا الضحاك يعني ابا عاصم، قال: اخبرنا حيوة بن شريح ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن ابن شماسة المهري، قال: حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياقة الموت، فبكى طويلا وحول وجهه إلى الجدار، فجعل ابنه، يقول: يا ابتاه، اما بشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا، اما بشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا؟ قال: فاقبل بوجهه، فقال: إن افضل ما نعد، شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، إني قد كنت على اطباق ثلاث، لقد رايتني وما احد اشد بغضا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مني، ولا احب إلي ان اكون قد استمكنت منه فقتلته، فلو مت على تلك الحال، لكنت من اهل النار، فلما جعل الله الإسلام في قلبي، اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: ابسط يمينك فلابايعك، فبسط يمينه، قال: فقبضت يدي، قال: ما لك يا عمرو؟ قال: قلت: اردت ان اشترط، قال: تشترط بماذا؟ قلت: ان يغفر لي، قال: اما علمت " ان الإسلام يهدم، ما كان قبله وان الهجرة تهدم ما كان قبلها، وان الحج يهدم ما كان قبله "، وما كان احد احب إلي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا اجل في عيني منه، وما كنت اطيق ان املا عيني منه إجلالا له، ولو سئلت ان اصفه ما اطقت، لاني لم اكن املا عيني منه، ولو مت على تلك الحال، لرجوت ان اكون من اهل الجنة، ثم ولينا اشياء ما ادري ما حالي فيها، فإذا انا مت، فلا تصحبني نائحة، ولا نار، فإذا دفنتموني، فشنوا علي التراب شنا، ثم اقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور، ويقسم لحمها حتى استانس بكم، وانظر ماذا اراجع به رسل ربي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ كلهم، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، فَبَكَى طَوِيلًا وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ، فَجَعَلَ ابْنُهُ، يَقُولُ: يَا أَبَتَاهُ، أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا، أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا؟ قَالَ: فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ، شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي، وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ قَدِ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلَمَّا جَعَلَ اللَّهُ الإِسْلَامَ فِي قَلْبِي، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ، قَالَ: فَقَبَضْتُ يَدِي، قَالَ: مَا لَكَ يَا عَمْرُو؟ قَالَ: قُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ، قَالَ: تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟ قُلْتُ: أَنْ يُغْفَرَ لِي، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ " أَنَّ الإِسْلَامَ يَهْدِمُ، مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا، وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ "، وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ، لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ، وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا، فَإِذَا أَنَا مُتُّ، فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي، فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.
ابن شماسہ مہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے، وہ موت کےسفر پر روانہ تھے، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا۔ ان کا بیٹا کہنے لگا: ابا جان! کیا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: جو کچھ ہم (آیندہ کے لیے) تیار کرتے ہیں، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسو ل ہیں۔ میں تین درجوں (مرحلوں) میں رہا۔ (پہلا یہ کہ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا۔ (دوسرا مرحلے میں) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، آپ نے دایاں ہاتھ پڑھایا، کہا: تو میں نے اپنا ہاتھ (پیچھے) کھینچ لیا۔ آپ نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کی: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کی: یہ (شرط) کہ مجھے معافی مل جائے۔ آپ نے فرمایا: عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے؟ او رہجرت ان تمام گناہوں کوساقط کر دیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کیے گئے تھے اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تہآ۔ اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا، پھر (تیسرا مرحلہ یہ آیا) ہم نےکچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی، میں نہیں جانتا ان میں میرا حال کیسا رہا؟ جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنےوالی میرے ساتھ نہ جائے، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر (دعا کرتے ہوئے) ٹھہرنا، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے (اپنی نئی منزل کے ساتھ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
ابن شمامہ مہدیؒ سے روایت ہے کہ عمرو بن عاص ؓ کے پاس ان کی موت کے وقت موجود تھے، تو وہ دیر تک روتے رہے اور چہرہ دیوار کی طرف کر لیا، تو ان کا بیٹا کہنے لگا: اے ابا جان! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہیں دی؟ کیا فلاں بشارت نہیں دی تھی؟ تو وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ہم سب سے بہتر چیز جس کا اہتمام و تیاری کرتے ہیں، اللہ کی الوہیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ہے اور مجھ پر تین قسم کے حالات گزرے ہیں (پہلا یہ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ مجھ سے زیادہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض نہ تھا اور نہ اس سے زیادہ کوئی چیز مجھے پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں، اگر میں (خدانخواستہ) اس حالت میں مر جاتا تو میں یقیناً دوزخی ہوتا۔ (دوسرا حال) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کردی تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیے، تاکہ میں بیعت کرسکوں۔ آپؐ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلا دیا، تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپؐ نے فرمایا: اے عمرو! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا شرط طے کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا شرط چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا مجھے معافی مل جائے آپ نے فرمایا: کیا تجھےمعلوم نہیں اسلام پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے؟ اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹادیتی ہے؟ اور حج پہلے گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے؟ اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ ہی آپ سے بڑھ کرمیرے نزدیک کوئی جلیل القدر تھا۔ اور میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ نہیں سکتا تھا، اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بیان نہیں کر سکوں گا، کیونکہ میں نے آپ کو آنکھیں بھر کر دیکھا ہی نہیں، اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنّتی ہوتا۔ (تیسرا حال یہ ہے) پھر کچھ امور ہمارے سپرد ہوئے، میں نہیں جانتا ان کی ادائیگی میں میری حالت کیا رہی (ان کی بناء پر میرا انجام کیا ہوگا)، تو جب میں مر جاؤں، کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ ہو، اور نہ ہی آگ ہو۔ اور جب تم مجھے دفن کر چکوتو مجھ پر مٹی ڈالنا، پھر میری قبر کے گرد اتنا ٹھہرنا جس میں اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکے، تاکہ میں تمھاری وجہ سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھ لوں اپنے رب کے فرستادوں کو میں کیا جواب دیتا ہوں؟۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 121

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (10737)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلم321عمرو بن العاصان الإسلام يهدم، ما كان قبله وان الهجرة تهدم ما كان قبلها، وان الحج يهدم ما كان قبله
   مشكوة المصابيح28عمرو بن العاصاما علمت ان الإسلام يهدم ما كان قبله وان الهجرة تهدم ما كان قبلها وان الحج يهدم ما كان قبله

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 321 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 321  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
سِيَاقُ الْمَوْتِ:
موت کی آمد،
موت کا قرب۔
(2)
أَطْبَاقٌ:
طَبَقٌ کی جمع ہے،
حالت۔
(3)
اسْتَمْكَنْتُ:
مکنت و قدرت حاصل کر سکوں۔
(4)
مكنة (قوت)
سے ماخوذ ہے۔
(5)
ابْسُطْ يَمِينَكَ:
اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے۔
(6)
يَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ:
پہلے اثرات مٹا دیتا ہے یا ختم کر دیتا ہے،
یعنی اس سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(7)
إِجْلَالٌ:
جلالت سے ماخوذ ہے،
عظمت و بڑائی۔
(8)
أَنْ أَصِفَهُ:
آپ کا حلیہ و صورت بیان کروں۔
(9)
شُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ:
مجھ پر مٹی ڈالنا۔
(10)
نَائِحَةٌ:
نوحہ اور ماتم کرنے والی۔
(11)
جَزُورٌ:
اونٹنی جسے نحر کیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
حدیث سے اسلام،
ہجرت اور حج کی عظمت اور مقام ومرتبہ ظاہر ہے،
اگر یہ کام اخلاص اور حسنِ نیت سے کیے جائیں تو ان سے پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور گناہوں کی نحوست سے پاک ہو کر انسان نیکی کرنے کا جذبہ حاصل کر لیتا ہے،
اسلام لاتے ہی مبغوض ترین شخصیت،
محبوب ترین بن جاتی ہے۔
(2)
جاہلیت کے دور میں مرنے والے کے ساتھ،
اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کے اظہار کے لیے ماتم کرنے والی جاتی تھیں،
اور اس کی جود وسخا کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آگ بھی ساتھ لے جائی جاتی تھی،
جاہلیت کے اس شعار کو اسلام نے ختم کر دیا۔
(3)
حاضرین کو قبر پر مٹی ڈالنا چاہیے،
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس کچھ وقت کے لیے رک کر ثابت قدمی کی دعا کرنا مسنون ہے۔
لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر کے پاس جو گفتگو کی جاتی ہے قبر والا اس کو سنتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 321   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 28  
´اسلام سابقہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے `
«. . . ‏‏‏‏وَعَن عَمْرو بن الْعَاصِ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقلت ابْسُطْ يَمِينك فلأبايعك - [16] - فَبسط يَمِينه قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي فَقَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قلت أردْت أَن أشْتَرط قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أما علمت أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يهدم مَا كَانَ قبله» ؟ ‏‏‏‏وَالْحَدِيثَانِ الْمَرْوِيَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ» . والاخر: «الْكِبْرِيَاء رِدَائي» سَنَذْكُرُهُمَا فِي بَابِ الرِّيَاءِ وَالْكِبْرِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا عرض کیا: آپ داہنا ہاتھ پھیلائیے آپ کے دست مبارک پر بیعت کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داہنے ہاتھ کو آگے بڑھا دیا۔ میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کیا؟ میں نے عرض کیا کچھ شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ وہ شرط لگا لو، میں نے عرض کیا کہ اس شرط پر بیعت کرں گا کہ میرے سب گناہوں کی بخشش ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اسلام ان تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ یعنی نیست و نابود کر دیتا ہے جو اسلام سے پہلے صادر ہو گئے تھے اور ہجرت ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتی ہے جو ہجرت سے پہلے ہوئے تھے۔ اور حج بھی ان تمام گناہوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جو حج سے پہلے ہو گئے تھے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 28]
تخریج الحدیث:
[صحیح مسلم 321]

فقہ الحدیث
➊ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی اور آپ کی وفات کے بعد «اولوالامر» (امراء) کی بیعت دائیں ہاتھ سے کی جاتی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ترون كفي هذه، فأشهد أني وضعتها على كف محمد صلى الله عليه وسلم»
تم میری یہ ہتھیلی دیکھتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسے (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر (بیعت کے لئے) رکھا تھا۔ [مسند أحمد 189/4 ح 17842 و سنده صحيح، وأخطأ من أعله، وأورده الضياء فى المختاره 59/9]
لہٰذا صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ جائز و مشروع بلکہ افضل ہے۔
دیوبندیوں کے ایک بڑے عالم محمود حسن گنگوہی صاحب ایک شخص کے استفسار پر مصافحہ کے بارے میں کہتے ہیں:
ایک ہاتھ سے بھی صحیح ہے اور دونوں ہاتھوں سے بھی، دونوں قول کوکب الدری ج 2 ص 141 میں ہیں۔ [ملفوظات فقيه الامت ج7 ص23]
صحیح بخاری میں ہے کہ: «وصافح حماد بن زيد ابن المبارك بيديه»
اور حماد بن زید نے ابن المبارک سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔ [كتاب الاستئذان باب الاخذ باليدين قبل ح: 6265]
لہٰذا اگر کوئی شخص دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ عام مرفوع احادیث سے استنباط کرتے ہوۓ صرف ایک (دائیں) ہاتھ سے ہی مصافحہ کیا جائے۔ «والله اعلم»

فائدہ: ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كنا إذا أتينا أنس بن مالك، فإذا رآنا دعا بدهن طيب، فيمسح به يديه ليصافح به أخوانه»
ہم جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آتے، جب وہ ہمیں دیکھتے تو خوشبودار تیل منگواتے پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ملتے تاکہ اس (خوشبودار تیل) کے ساتھ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کریں۔ [كتاب الزهد لابي حاتم الرازي ص76 وسنده صحيح]
اسی روایت کی دوسری سند میں ثابت البنانی رحمہ اللہ سے آیا ہے کہ:
«أن انسا كان أصبح دهن يده بدهن طيب لمصافحة إخوانه»
بےشک جب صبح ہوئی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر خوشبودار تیل لگاتے تاکہ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کریں۔ [الادب المفرد و للبحاري: 1012 وسنده حسن]
اس مسئلے میں تشدد کرنا صحیح نہیں ہے۔ جس کی جو تحقیق ہے وہ اس پر عمل کر لے، ان شاء اللہ عنداللہ ماجور ہو گا۔ نیز دیکھئے: [الادب المفرد للبخاري: 973 و سنده حسن]
➋ اگر کوئی (دارالحرب والا) کافر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو اس کے پہلے (سابقہ) سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حج اور ہجرت سے سارے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لئے توبہ اور حق دار تک اس کا حق لوٹانا ضروری ہے۔
➌ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست کہ ان کی مغفرت ہو جائے، ان کی فضیلیت کی زبردست دلیل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«ابنا العاص مؤمنان عمرو و هشام»
عاص کے دونوں بیٹے عمرو (بن العاص) اور ہشام (بن العاص رضی اللہ عنہما) مؤمن ہیں۔ [مسند أحمد 304/2 ح 8029 و سنده حسن]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 28   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.