● سنن النسائى الصغرى | 215 | جابر بن عبد الله | مرها أن تغتسل وتهل |
● سنن النسائى الصغرى | 292 | جابر بن عبد الله | اغتسلي واستثفري ثم أهلي |
● سنن النسائى الصغرى | 392 | جابر بن عبد الله | مرها أن تغتسل وتهل |
● سنن النسائى الصغرى | 429 | جابر بن عبد الله | اغتسلي ثم استثفري ثم أهلي |
● صحيح البخاري | 1785 | جابر بن عبد الله | أهل وأصحابه بالحج وليس مع أحد منهم هدي غير النبي وطلحة وكان علي قدم من اليمن ومعه الهدي أهللت بما أهل به رسول الله وأن النبي أذن لأصحابه أن يجعلوها عمرة يطوفوا بالبيت ثم يقصروا ويحلوا إلا من م |
● صحيح مسلم | 2950 | جابر بن عبد الله | مكث تسع سنين لم يحج ثم أذن في الناس في العاشرة أن رسول الله حاج فقدم المدينة بشر كثير كلهم يلتمس أن يأتم برسول الله ويعمل مثل عمله خرجنا معه حتى أتينا ذا الحليفة فولدت أسماء بنت عميس محمد بن أبي بكر |
● صحيح مسلم | 2909 | جابر بن عبد الله | تغتسل وتهل |
● سنن أبي داود | 1905 | جابر بن عبد الله | مكث تسع سنين لم يحج ثم أذن في الناس في العاشرة أن رسول الله حاج ولدت أسماء بنت عميس محمد بن أبي بكر فأرسلت إلى رسول الله كيف أصنع اغتسلي واستذفري بثوب وأحرمي صلى رسول الله في المسجد ثم ركب القصواء حتى إذا استوت به ناقته على البيداء أهل رسول الله بالتوحيد |
● سنن ابن ماجه | 3074 | جابر بن عبد الله | مكث تسع سنين لم يحج فأذن في الناس في العاشرة أن رسول الله حاج خرج وخرجنا معه فأتينا ذا الحليفة فولدت أسماء بنت عميس محمد بن أبي بكر |
● سنن ابن ماجه | 2913 | جابر بن عبد الله | أمرها أن تغتسل وتستثفر بثوب وتهل |
● سنن النسائى الصغرى | 2741 | جابر بن عبد الله | مكث بالمدينة تسع حجج ثم أذن في الناس أن رسول الله حاج في هذا العام فنزل المدينة بشر كثير كلهم يلتمس أن يأتم برسول الله ويفعل ما يفعل فخرج رسول الله لخمس بقين من ذي القعدة وخرجنا معه |
● سنن النسائى الصغرى | 2762 | جابر بن عبد الله | اغتسلي واستثفري بثوب ثم أهلي |
● سنن النسائى الصغرى | 2763 | جابر بن عبد الله | تغتسل وتستثفر بثوبها وتهل |
● سنن النسائى الصغرى | 2764 | جابر بن عبد الله | هذا أمر كتبه الله على بنات آدم اغتسلي ثم أهلي بالحج ففعلت وقفت المواقف حتى إذا طهرت طافت بالكعبة وبالصفا والمروة قد حللت من حجتك وعمرتك جميعا فقالت يا رسول الله إني أجد في نفسي أني لم أطف بالبيت حتى حججت قال فاذهب بها يا عبد الرحمن فأعمرها |
● بلوغ المرام | 44 | جابر بن عبد الله | ابدءوا بما بدا الله به . اخرجه النسائي هكذا بلفظ الامر، وهو عند مسلم بلفظ الخبر |
● بلوغ المرام | 607 | جابر بن عبد الله | حج فخرجنا معه حتى إذا اتينا ذا الحليفة فولدت اسماء بنت عميس |
● المعجم الصغير للطبراني | 865 | جابر بن عبد الله | إني تارك فيكم الثقلين أحدهما أكبر من الآخر : كتاب الله عز وجل حبل ممدود من السماء إلى الأرض ، وعترتي أهل بيتي ، وإنهما لن يفترقا حتى يردا على الحوض |
● المعجم الصغير للطبراني | 867 | جابر بن عبد الله | إني تارك فيكم الثقلين ما إن تمسكتم به لن تضلوا كتاب الله وعترتي ، وإنهما لن يفترقا حتى يردا على الحوض |
● مسندالحميدي | 1304 | جابر بن عبد الله | نبدأ بما بدأ الله به |
● مسندالحميدي | 1305 | جابر بن عبد الله | لما تصوبت قدما رسول الله صلى الله عليه وسلم في الوادي رمل حتى جاز الوادي |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 392
´نفاس والی عورتیں احرام کے وقت کیا کریں؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ غسل کر لیں، اور احرام باندھ لیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 392]
392۔ اردو حاشیہ: نفاس یا حیض والی عورت کا احرام کے وقت غسل کرنا طہارت کے لیے نہیں، کیونکہ وہ تو نفاس یا حیض ختم ہونے کے بعد ہو گا، بلکہ یہ غسل جسمانی صفائی کے لیے ہے، کیونکہ احرام کئی دن جاری رہ سکتا ہے۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 292۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 392
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 429
´احرام باندھنے کے وقت نفاس والی عورتوں کے غسل کا بیان۔`
محمد (باقر) کہتے ہیں: ہم لوگ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے حجۃ الوداع کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس ذی قعدہ کو (مدینہ سے) نکلے، ہم آپ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ آئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”تم غسل کر لو، پھر لنگوٹ باندھ لو، پھر (احرام باندھ کر) لبیک پکارو۔“ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 429]
429۔ اردو حاشیہ:
➊ نفاس والی عورت کا احرام کے موقع پر غسل صرف جسمانی صفائی یا احرام کی اہمیت کے لیے ہے، نہ کہ پاکیزگی کے لیے کیونکہ وہ غسل تو نفاس (خون) ختم ہونے کے بعد ہو گا۔
➋ لنگوٹ باندھنا اس لیے ہے تاکہ خون کپڑوں اور جسم کو خراب نہ کرے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 292 اور اس کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 429
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 215
´نفاس سے غسل کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والی حدیث میں روایت ہے کہ جس وقت انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آیا ۱؎، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”اسے حکم دو کہ وہ غسل کر لے، اور احرام باندھ لے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 215]
215 . اردو حاشیہ:
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو نفاس کا خون آنے کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خون نجس اور پلید ہے، جس طرح خون حیض نجس ہوتا ہے کیونکہ اس کی نجاست پر بھی علمائے کرام کا اجماع ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ خون تو ابھی منقطع نہیں ہوا، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا محل کیا ہے؟ لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نفاس غسل کا حکم بطور نظافت کے دیا ہے کیونکہ حالت احرام میں نظافت مطلو ب ہے، لہٰذا جب اس حالت میں غسل کا حکم ہے، تو خون منقطع ہونے کے بعد تو بالاولیٰ اسے یہ حکم ہو گا تاکہ کمال طہارت حاصل ہو جائے، غالباً امام نسائی رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ اس طرح حدیث اور باب میں باہم مطابقت کی صورت نکل آتی ہے کیونکہ امام صاحب نے بھی «الإغتسال من النفاس» کہا ہے، یعنی ”خون نفاس کی وجہ سے غسل کا بیان“، نہ کہ ان کی غرض یہ ہے کہ غسل کا حکم صرف خون منقطع ہونے کے وقت ہے۔ اس صورت میں واقعی باب کی حدیث سے مطابقت نہیں ہوتی جیسا کہ امام سندھی رحمہ اللہ سمجھے ہیں۔ «والله أعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائي: 297/4]
➋ حیض یا نفاس والی عورت کے لیے غسل کرنے کے بعد حج یا عمرے کا احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا مشروع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 215
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 292
´احرام باندھنے کے وقت نفاس والی عورتیں کیا کریں؟`
محمد کہتے ہیں کہ ہم لوگ جابر بن عبداللہ کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس ذی قعدہ کو نکلے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیج کر دریافت کیا کہ اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور لنگوٹ کس لو، پھر لبیک پکارو۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 292]
292۔ اردو حاشیہ:
➊ نفاس سے مراد وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد عورت کو آتا ہے۔ اس دوران میں بھی عورت کے لیے نماز، روزہ، قرآن اور جماع «» ممنوع ہے۔ خون کے اختتام پر غسل کرنے کے بعد مذکورہ چیزیں حلال ہوتی ہیں۔
➋ احرام کے مسئلے میں نفاس والی عورت باقی عورتوں کے برابر ہے، وہ لبیک کہے گی اور حج کے تمام ارکان بھی ادا کرے گی مگر طواف اور سعی نہیں کرے گی کیونکہ اس کا حکم حیض والی عورت کی طرح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 292
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2741
´تلبیہ کہتے وقت حج یا عمرے کا نام نہ لینے کا بیان۔`
ابو جعفر محمد بن علی باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک مدینہ میں رہے پھر لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ امسال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، تو بہت سارے لوگ مدینہ آ گئے، سب یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور وہی کریں جو آپ کرتے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2741]
اردو حاشہ:
(1) ”نو سال“ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔
(2) ”اعلان کروایا گیا۔“ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔
(3) ”نیت حج کی تھی۔“ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔
(4) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لبَّيكَ بعُمرةٍ وحجَّةٍ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1563، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1232) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2741
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2762
´نفاس والی عورت کے تلبیہ پکارنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ میں رہے، اور حج نہیں کر سکے، پھر (دسویں سال) آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا تو کوئی بھی جو سواری سے یا پیدل آ سکتا تھا ایسا بچا ہو جو نہ آیا ہو، لوگ آپ کے ساتھ حج کو جانے کے لیے آتے گئے یہاں تک کہ آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو جنا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اطلاع بھیجی کہ وہ کیا کریں۔ تو آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2762]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، حدیث: 2664، 2665۔
(2) نفاس والی عورت کا احرام کے وقت غسل کرنا طہارت کے لیے نہیں صرف احرام کی سنت کے طور پر ہے تاکہ احرام کے دنوں میں سر یا بدن میں جوؤں یا میل کچیل سے بچت ہو سکے۔ یہ غسل حائضہ بھی کرے گی۔ غسل کے بعد لبیک کہا جائے، پھر طواف کے علاوہ باقی ارکان ادا کیے جا سکتے ہیں، خواہ حیض ونفاس کا خون جاری ہو۔ (اسی لیے لنگوٹ باندھنے کا حکم دیا۔) جب یہ حالت ختم ہو تو بعد میں طواف کر لے، خواہ کتنی ہی تاخیر ہو جائے۔
(3) حیض اور نفاس والی عورت کی سعی کی بابت اختلاف ہے، تاہم احوط اور افضل یہی ہے کہ وہ صفا مروہ کی سعی بھی نہ کرے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2762
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2763
´نفاس والی عورت کے تلبیہ پکارنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر کو جنا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ تو آپ نے انہیں غسل کرنے، کپڑے کا لنگوٹ باندھنے، اور تلبیہ پکارنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2763]
اردو حاشہ:
یہ فرض غسل نہیں۔ اگر کوئی مجبوری ہو اور غسل نہ کیا جائے تو بھی گزارا ہو جائے گا، تاہم بلا وجہ نہ چھوڑا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2763
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2764
´عمرہ کا تلبیہ پکارنے والی عورت کو حیض آ جائے اور اسے حج کے فوت ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ کیا کرے؟`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا عمرہ کا تلبیہ پکارتی ہوئی آئیں۔ یہاں تک کہ جب ہم سرف ۱؎ پہنچے، تو وہ حائضہ ہو گئیں۔ اور اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ جب ہم (مکہ) پہنچ گئے اور ہم نے خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2764]
اردو حاشہ:
(1) ”حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا“ ان الفاظ سے ظاہراً یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شروع ہی سے عمرے کا احرام باندھا تھا، مگر یہ درست نہیں۔ اصل بات یوں ہے کہ حضرت عائشہؓ اور اکثر لوگوں نے حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ راستے میں آپ نے وحی کی بنا پر یہ حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کر لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی قربانی کا جانور نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیا۔ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو انھیں حیض شروع ہوگیا، لہٰذا وہ عمرہ نہ کر سکیں۔ یوم ترویہ (8 ذوالحجہ) تک حیض ہی ختم نہ ہوا کہ عمرہ کر کے حج شروع کرتیں۔ اسی لیے انھیں پریشانی ہوئی جس کا تفصیلی ذکر اس حدیث میں ہے۔
(2) سرف: یہ ایک مقام ہے مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر۔
(3) ”کس قسم کی حلت“ چونکہ ابتداء حج ہی کا احرام باندھا تھا، نیز حج کے افعال شروع ہونے کو صرف تین دن باقی تھے، اس لیے ان کو حلال ہونے میں تردد تھا۔
(4) ”مکمل حلت“ یعنی تم جماع کر سکتے ہو۔
(5) ”چار راتیں“ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھ ذوالحجہ کو حاجی لوگ منیٰ میں جاتے ہیں۔ درمیان میں یہی تین چار دن تھے۔
(6) ”حج کا احرام باندھ لے۔“ یعنی عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لے تاکہ دونوں اٹھے ادا ہو جائیں جیسا کہ آخر میں ہے کہ تو دونوں سے فارغ ہوگئی ہے، یعنی دونوں ادا ہو گئے ہیں۔ گویا صرف نیت دونوں کی چاہیے، افعال صرف حج والے ہی ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، جبکہ احناف کے نزدیک قران کی صورت میں عمرہ الگ کرنا ہوگا، حج الگ۔ صرف احرام مشترکہ ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں: ”تو عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھ لے۔“ مگر آخری الفاظ: ”تو حج و عمرہ دونوں سے حلال ہوگئی ہے۔“ اس کے خلاف ہیں۔
(7) ”میں اپنے دل میں کچھ محسوس کر رہی ہوں۔“ یعنی میرا عمرہ حج سے الگ نہیں ہوا، لہٰذا مجھے اطمینان نہیں ہو رہا۔
(8) ”اے عبدالرحمن!“ یہ عبدالرحمن حضرت عائشہؓ کے سگے بھائی تھے۔
(9) ”تنعیم“ یہ ایک مقام ہے جو مکہ سے تقریباً چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ حد ہے حل اور حرم کے درمیان۔ مطلب نبیﷺ کا یہ تھا کہ انھیں وہاں لے جاؤ تاکہ یہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر آئیں اور الگ عمرہ کریں۔ رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہؓ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ کیونکہ تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں جس سے احرام باندھا جائے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی حائضہ عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی، جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے ”چھوٹا عمرہ“ قرار دیتے ہیں۔ یہ رواج اور استدلال بے بنیاد ہے۔
(10) ”محصب میں گزاری“ یہ چودھویں رات تھی ذوالحجہ کی۔ منیٰ سے واپس آتے ہوئے آپ رات یہاں ٹھہرے تھے۔ احناف کے نزدیک یہ رات محصب میں ٹھہرنا حج کی سنت ہے جبکہ دیگر اہل علم کے نزدیک آپ کا یہاں ٹھہرنا اتفاقاً تھا۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ سارا سامان لے کر مکے جائیں اور پھر وہ سامان لے کر یہاں آئیں، لہٰذا پڑاؤ وہاں ڈال لیا۔ سامان کے بغیر مکہ مکرمہ آئے، طواف وداع کیا اور راتوں رات واپس چلے گئے۔ بعض صحابہ سے یہی بات صراحتاً منقول ہے۔ محصب کو حصبہ، حصبائ، ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2764
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2913
´نفاس اور حیض والی عورتیں حج کا تلبیہ پکار سکتی ہیں۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو محمد بن ابی بکر کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس (کا خون) آیا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسل کرنے، اور کپڑے کا لنگوٹ کس کر احرام باندھ لینے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2913]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
کپڑا باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر روئی وغیرہ رکھ لی جائے تاکہ دوسرے کپڑوں کو خون نہ لگےاور پریشانی نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2913
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3074
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان۔`
جعفر الصادق اپنے والد محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں پوچھا کہ کون لوگ ہیں، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے پوچھا، میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی کھولی پھر اپنی ہتھیلی میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا، اور کہا: تمہیں خوش آمدید، تم جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے (کچھ باتیں) پوچھیں، وہ نابینا تھے ۱؎ اتنے میں ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3074]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ آدمی کو چاہیے کہ نوجوانوں سے شفقت کا سلوک کرے۔
(2)
نابینا ہونا حصول علم یا تعلیم و تبلیغ میں رکاوٹ نہیں۔
(3)
بڑا کپڑا ہوتے ہوئے چھوٹے میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
(4)
مرد کے لیے نماز میں سر ڈھانکنا ضروری نہیں اگرچہ ڈھانکنے کے لیے کپڑا موجود ہوتاہم ننگے سر رہنے کواور اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کو معمول بنا لینا نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسوہ اور عمل کے خلاف ہے۔
عورت کے لیے سر چھپانا ضروری ہے۔
اگرچہ وہ گھر میں اکیلی نماز پڑ ھ رہی ہو۔
(5)
رسول اللہﷺ کا عمل قرآن کی تشریح ہے۔
قرآن مجید میں حج کا حکم ہے۔
اس کی ادائیگی کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور عمل سے معلوم ہوا۔
(6)
مدینے والوں کا میقات ذوالحلیفہ ہے۔
اسے آج کل آبار علي یا بئر علي کہتے ہیں۔
مدینے سے حج یا عمرے کے لیے جانے والوں کو یہاں سے احرام باندھنا چاہیے،
(7)
حیض و نفاس حج سے رکاوٹ کا باعث نہیں۔
(8)
کپڑا باندھنے کا حکم اس لیے دیاکہ اس کے اندر روئی وغیرہ رکھ لی جائے تاکہ خون اس میں جذب ہوتا رہے۔
اور دوسرے کپڑے خراب نہ ہوں۔
(9)
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ مشہور صحابی خاتون ہیں۔
پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے۔
حضرت جعفر 8ھ میں غزوہ موتہ میں شہید ہوگئے۔
تو حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ 13ھ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں آ گئیں۔
ان سے ان کے ہاں یحیٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
آپ ام المومنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ کی ماں شریک بہن تھیں اور حضرت عباس ر ضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الفضل رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔
(10)
لبیک پکارتے وقت بہتر یہ ہے کہ وہی الفاظ پڑھے جائیں جو رسول اللہ ﷺ نے پڑھےتاہم دوسرے الفاظ بھی درست ہیں جن میں اللہ کی توحید اس کی طرف رغبت کا اظہار ہو۔
(11)
طواف کی دو رکعتوں میں سورۃ الکفرون اور سورہ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔
(12)
صفا اور مروہ پر ہر چکر میں کعبہ رخ ہو کر دعا مانگنا مسنون ہے۔
(13)
حج مفرد کی نیت کو عمرے کی نیت میں تبدیل کرکے حج تمتع کرنا درست ہے۔
(14)
جو شخص میقات سے قربانی کا جانور نہ لایا ہو اسے حج تمتع ادا کرنا چاہیے۔
(15)
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔
(16)
ایک راوی سے حدیث سن کر مزید تاکید کے لیے دوسرے راوی یا استاد سے دریافت کرنا جائز ہے۔
جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے احرام کھولنے کا مسئلہ سن کر نبی اکرم ﷺ سے تصدیق چاہی۔
(17)
حج تمتع کرنے والے کو عمرہ کرکے احرام کھولنا اور دوبارہ آٹھ ذوالحجہ کو حرام باندھنا چاہیے۔
(18)
یہ احرام مکہ میں اپنی رہائش گاہ ہی سے باندھنا چاہیے۔
اس کے لیے میقات پر جانے کی ضرورت نہیں۔
(19)
منی میں آٹھ ذو الحجہ کی ظہر سے نو ذوالحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرنی ہیں۔
(20)
نو ذوالحجہ کو زوال سے پہلے نمرہ میں ٹھہرنا چاہیے۔
زوال کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا چاہیے۔
(21)
زوال سے غروب آفتا ب کا وقت عرفات میں ٹھہرنے کا ہے۔
یہ حج کا اہم ترین رکن ہے۔
(22)
جو شخص بروقت عرفات نہ پہنچ سکے وہ رات کو کسی وقت صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے عرفات میں حاضر ہوجائے۔
اس کا بھی حج ہوجائے گا۔ دیکھیے۔
:
(سن ابن ماجة، حديث: 3015)
(23)
عرفات میں قبلہ رو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعائیں مانگنا۔
اور ذکر الہی میں مشغول رہنا چاہیے۔
(24)
عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر روانہ ہونا چاہیے۔
(25)
مغرب کی نماز عشاء کے ساتھ ملا کر مزدلفہ میں ادا کرنا مسنون ہے۔
راستے میں مغرب کی نماز اد ا کرنا سنت کے خلاف ہے۔
(26)
بعض لوگ مزدلفہ کی رات جاگتے اور نوافل پڑھتے ہیں اس رات سونا ہی سنت کا اتباع ہے۔
اور اصل ثواب سنت کی پیروی میں ہے۔
خلاف سنت محنت کرنے میں نہیں۔
(27)
مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کافی روشنی ہوجانے تک ذکر ودعا میں مشغول رہنا چاہیے۔
(28)
غلطی کرنے والے کو نرمی سے سمجھایا اور اس غلطی سے روکا جا سکتا ہے۔
ڈانٹ ڈپٹ سے ممکن حد تک اجتناب کرنا چاہیے۔
(29)
جن مقامات میں کسی قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہووہاں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ایسے مقامات کو تفریح گاہیں سمجھ لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
(30)
دس ذی الحجہ کو صرف برے جمرے کو رمی کرنی ہوتی ہے۔
(31)
جمرے پر صرف سات کنکریاں مارنی چاہییں۔
(32)
بڑی بڑی کنکریاں مارنا پتھر اور جوتے مارنا غلو ہے۔
جس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔
(33)
دس ذی الحجہ کے اعمال کی ترتیب یہ ہے:
رمی، قربانی، حجامت اور طواف کعبہ۔
اگر یہ ترتیب قائم نہ رہ سکے تو کوئی دم یا فدیہ وغیرہ لازم نہیں آتا۔
(34)
قربانی کی واجب مقدار ایک بھیڑ بکری نر ہویا مادہ یا گائے اور اونٹ کا ایک حصہ ہے۔
اس سے زیادہ جتنی طاقت ہوجانور قربانی کیے جا سکتے ہیں۔
(35)
قربانی کا گوشت غریب مسکین لوگوں کا حق ہے۔
تاہم خود بھی کھانا مسنون ہے۔
(36)
زمزم کا پانی پینا سنت اور ثواب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3074
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1304
1304- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کا طواف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعات نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا استلام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفاء کی طرف تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم اس سے آغاز کریں گے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے“ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ» (2-البقرة:158) ”بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1304]
فائدہ:
اس حدیث سے مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے، اور اس کے بعد بھی حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے۔
سعی صفا سے شروع کرنی چاہیے، اس پر بحوث گزر چکی ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1302
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1305
1305- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم وادی کے نشیبی حصے میں پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (نشیبی حصے) کو پار کرلیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1305]
فائدہ:
صفا ومروہ کے درمیان جہاں اب سبنر لائنیں لگی ہوئی ہیں، وہاں سے تیز چل کر گزرنا ہے، حج و عمرہ میں اگر غور کیا جائے تو ہر جگہ اتباع قرآن و سنت کو لازم پکڑ نے کا درس ملتا ہے، لیکن انسان کس قدر غافل ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے دور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1303