وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو ، عن بكير بن الاشج ، عن كريب مولى ابن عباس رضي الله، عن ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: " إن الناس شكوا في صيام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة، فارسلت إليه ميمونة بحلاب اللبن وهو واقف في الموقف، فشرب منه والناس ينظرون إليه ".وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " إِنَّ النَّاسَ شَكُّوا فِي صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَيْمُونَةُ بِحِلَابِ اللَّبَنِ وَهُوَ وَاقِفٌ فِي الْمَوْقِفِ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ ".
ہارون بن سعید، ابن وہب، عمر، بکیر، بن اشج، کریب، مولی ابن عباس، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں شک میں پڑ گئے چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دودھ کا ایک لوٹا بھیجا جس وقت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں کھڑے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےدودھ پیا جبکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگوں نے عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے بارے میں شک کیا تو میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا برتن ارسال کیا جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرنے کی جگہ (عرفات) میں ٹھہرے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نوش فرمایا جبکہ لوگ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2636
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عرفہ کے دن چونکہ حاجی منی سے عرفات جاتے ہیں وہاں ظہر و عصر کی نماز جمع کرتے ہیں اور امام خطبہ دیتا ہے پھر شام تک میدان عرفات میں دعا اور استغفار کے لیے وقوف کرنا ہوتا ہے اور آفتاب کے غروب ہوتے ہی مزدلفہ کی طرف واپس آنا ہوتا ہے ان کاموں کی سر انجام دہی کی بنا پر حاجی کے لیے روزہ مشکل اور مشقت کا باعث بنتا ہے اس لیے حاجیوں کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کی خاطر عرفہ کے دن جبکہ آپ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر تھے اور وقوف فرما رہے تھے سب کے سامنے دودھ نوش فرمایا تاکہ سب دیکھ لیں کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ نہیں ہے اور دودھ دونوں بہنوں اُم الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باہمی مشورہ سے بھیجا گیا تھا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لے کر گئے تھے اس لیے اس کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مولیٰ تھے لیکن ہر وقت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے شاگرد اور قابل اعتماد تھے اس لیے ان کو مولیٰ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہہ دیا جاتا تھا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام امالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک حاجیوں کے لیے عرفہ کا روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2636
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1989
1989. حضرت میمونہ ؓسے روایت ہے کہ لوگوں نے عرفہ کے دن نبی کریم ﷺ کے روزے میں شک کیا تو انھوں نے آپ کے پاس دودھ بھیجا جبکہ آپ عرفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ نے اس میں سے کچھ دودھ نوش فرمایا جبکہ لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1989]
حدیث حاشیہ: عبداللہ بن وہب نے خود یہ حدیث یحییٰ کو سنائی یا عبداللہ بن وہب کے شاگردوں نے ان کو سنائی، دونوں طرح حدیث کی روایت صحیح ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ان حدیثوں کو ذکر نہیں کیا جن میں عرفہ کے روزہ کی ترغیب ہے، جب کہ وہ حدیث بیان کی جس سے عرفہ میں آپ کا افطار کرنا ثابت ہے۔ کیوں کہ وہ حدیثیں ان کی شرط کے موافق صحیح نہ ہوں گی۔ حالانکہ امام مسلم نے ابوقتادہ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، عرفہ کا روزہ ایک برس آگے اور ایک برس پیچھے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور بعض نے کہا عرفہ کا روزہ حاجی کو نہ رکھنا چاہئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ضعف نہ ہوجائے اور حج کے اعمال بجالانے میں خلل واقع ہو۔ اور اس طرح باب کی احادیث اور ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1989
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1989
1989. حضرت میمونہ ؓسے روایت ہے کہ لوگوں نے عرفہ کے دن نبی کریم ﷺ کے روزے میں شک کیا تو انھوں نے آپ کے پاس دودھ بھیجا جبکہ آپ عرفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ نے اس میں سے کچھ دودھ نوش فرمایا جبکہ لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1989]
حدیث حاشیہ: (1) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج کرام کو میدان عرفات میں نویں ذوالحجہ کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میدان عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسندأحمد: 304/2) اس دن روزہ نہ رکھنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے انسان کمزور ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ وہاں دعا، ذکر اور دیگر افعال خیر کے انجام دینے سے عاجز ہو جائے۔ واللہ أعلم۔ (2) حجاج کرام کے علاوہ دیگر حضرات کے لیے اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے، چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہ مٹا دیتا ہے: ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2746(1162)(3) بعض معاصرین کا خیال ہے کہ غیر حجاج کے لیے یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے، خواہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ ہی کیوں نہ ہو، یہ خیال بوجوہ محل نظر ہے۔ ٭ ہر انسان اس بات کی طاقت نہیں رکھتا کہ یوم عرفہ کی تعیین کر سکے، اس لیے اسے اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے۔ ٭ بعض مقامات پر تاریخوں کا اختلاف ہوتا ہے، یعنی ہمارے پاک و ہند میں یوم عرفہ کی آٹھ تاریخ ہوتی ہے جبکہ بعض مغربی ممالک ایسے ہیں جہاں یوم عرفہ کو دس تاریخ ہو سکتی ہے، اس لیے وہاں عید ہو گی اور عید کا روزہ رکھنا منع ہے، اس لیے روزے دار کو سعودی عرب کے یوم عرفہ سے وابستہ کرنا محل نظر ہے۔ ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ہم اپنے حساب سے چاند کا اعتبار کریں، جس دن ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو، اس دن کا روزہ رکھیں، خواہ سعودی عرب میں عید ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1989