حدثنا عبيد الله بن معاذ ، وحامد بن عمر ، ومحمد بن عبد الاعلى ، قال ابن معاذ: حدثنا المعتمر بن سليمان ، عن ابيه ، قال: حدثني السميط ، عن انس بن مالك ، قال: افتتحنا مكة، ثم إنا غزونا حنينا، فجاء المشركون باحسن صفوف رايت، قال: فصفت الخيل، ثم صفت المقاتلة، ثم صفت النساء من وراء ذلك، ثم صفت الغنم، ثم صفت النعم، قال: ونحن بشر كثير قد بلغنا ستة آلاف، وعلى مجنبة خيلنا خالد بن الوليد، قال: فجعلت خيلنا تلوي خلف ظهورنا، فلم نلبث ان انكشفت خيلنا، وفرت الاعراب ومن نعلم من الناس، قال فنادى رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا للمهاجرين يا للمهاجرين "، ثم قال: " يا للانصار يا للانصار "، قال: قال انس: هذا حديث عمية، قال: قلنا: لبيك يا رسول الله، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " فايم الله ما اتيناهم حتى هزمهم الله "، قال: فقبضنا ذلك المال، ثم انطلقنا إلى الطائف فحاصرناهم اربعين ليلة، ثم رجعنا إلى مكة فنزلنا، قال: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي الرجل المائة من الإبل، ثم ذكر باقي الحديث كنحو حديث قتادة، وابي التياح، وهشام بن زيد.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي السُّمَيْطُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: افْتَتَحْنَا مَكَّةَ، ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَيْنًا، فَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَيْتُ، قَالَ: فَصُفَّتِ الْخَيْلُ، ثُمَّ صُفَّتِ الْمُقَاتِلَةُ، ثُمَّ صُفَّتِ النِّسَاءُ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ، ثُمَّ صُفَّتِ الْغَنَمُ، ثُمَّ صُفَّتِ النَّعَمُ، قَالَ: وَنَحْنُ بَشَرٌ كَثِيرٌ قَدْ بَلَغْنَا سِتَّةَ آلَافٍ، وَعَلَى مُجَنِّبَةِ خَيْلِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ خَيْلُنَا تَلْوِي خَلْفَ ظُهُورِنَا، فَلَمْ نَلْبَثْ أَنِ انْكَشَفَتْ خَيْلُنَا، وَفَرَّتِ الْأَعْرَابُ وَمَنْ نَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ فَنَادَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا لَلْمُهَاجِرِينَ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا لَلْأَنْصَارِ يَا لَلْأَنْصَارِ "، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: هَذَا حَدِيثُ عِمِّيَّةٍ، قَالَ: قُلْنَا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَايْمُ اللَّهِ مَا أَتَيْنَاهُمْ حَتَّى هَزَمَهُمُ اللَّهُ "، قَالَ: فَقَبَضْنَا ذَلِكَ الْمَالَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاهُمْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى مَكَّةَ فَنَزَلْنَا، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الرَّجُلَ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، ثُمَّ ذَكَرَ بَاقِيَ الْحَدِيثِ كَنَحْوِ حَدِيثِ قَتَادَةَ، وَأَبِي التَّيَّاحِ، وَهِشَامِ بْنِ زَيْدٍ.
سمیط نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نے مکہ فتح کرلیا، پھر ہم نے حنین میں جنگ کی، میرے مشاہدے کے مطابق مشرک بہترین صف بندی کرکے (مقابلہ میں) آئے۔پہلے گھڑ سواروں کی صف بنائی گئی، پھر جنگجوؤں (لڑنے والوں) کی، پھر اس کے پیچھے عورتوں کی صف بنائی گئی، پھر بکریوں کی قطاریں کھڑی کی گئیں، پھر اونٹوں کی قطاریں۔کہا: اور ہم (انصار) بہت لوگ تھے، ہماری تعداد چھ ہزار کو پہنچ گئی تھی اور ہمارے پہلو کے سواروں پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ہمارے گھڑ سوار ہماری پشتوں کی طرف مڑنے لگے اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے سوار بکھر گئے اور بدو بھی بھاگ گئے اور وہ لوگ بھی جن کو ہم جانتے ہیں (مکہ کے نو مسلم) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی: "اے مہاجرین!اے مہاجرین!"پھر فرمایا: "اے انصار! اے انصار!کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ (میرے اپنے مشاہدے کے علاوہ جنگ میں شریک لوگوں کی) جماعت کی روایت ہے۔کہا: ہم نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، اور ہم اللہ کی قسم!ان تک پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ نے ان کو شکست سے دو چار کردیا، اس پر ہم نے اس سارے مال پر قبضہ کرلیا، پھر ہم طائف کی طرف روانہ ہوئے اور چالیس دن تک ان کا محاصرہ کیا، پھر ہم مکہ واپس آئے اوروہاں پڑاؤکیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سواونٹ (کے حساب سے) دینے کا آغاز فرمایا۔۔۔پھرحدیث کا باقی حصہ اسی طرح بیان کیا جس طرح (اوپر کی روایات میں) قتادہ، ابو تیاح اور ہشام بن زیدکی روایت ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ ہم نے مکہ فتح کرلیا، پھر ہم نے حنین کا رخ کیا، اور مشرک میرے مشاہدے کے مطابق بہترین صف بندی کر کے مقابلہ میں) آئے۔ پہلے گھڑ سواروں کی صف، پھر جنگجوؤں اور لڑنے والوں کی صف، پھر اس کے پیچھے عورتوں کی صف (تاکہ یہ لوگ اگر بھاگیں تو عورتیں عار دلائیں)، پھر بکریوں کی صف، پھر اونٹوں کی صف۔ اور ہماری تعداد بہت زیادہ تھی، جو چھ ہزار کو پہنچ گئی تھی اور ہمارے ایک طرف گھوڑ دستہ کے امیر خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ہمارے گھڑ سوار ہماری پشتوں کی طرف مڑنے لگے اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے شاہ سوار سامنے سے ہٹ گئے اور بدو بھاگ گئے اور وہ لوگ بھی جن کو ہم جانتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی: ”اے مہاجرو! اے مہاجرو!“ پھر فرمایا: ”اے انصاریو! اے انصاریو!“ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہتے ہیں جماعت کی روایت ہے۔ ہم نے کہا: لبیک،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے،اور ہم اللہ کی قسم! دشمن تک پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ نے ان کو شکست سے دو چار کر دیا، یہ سارا مال ہمارے قبضے میں آ گیا، پھر ہم طائف کی طرف چلے گئےاور اور چالیس دن تک ان کا محاصرہ کیا، پھر ہم مکہ واپس آئے اوروہاں پڑاؤ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سو اونٹ دینے لگے۔ پھرحدیث کا باقی حصہ بیان کیا، جیسا کہ اوپر کی روایات میں قتادہ، ابو تیاح اور ہشام بن زیدکی روایات میں گزر چکا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2442
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ (مُجَنِّبة) : گھوڑ سوار دستہ کو کہتے ہیں۔ اور یہ دو ہوتے ہیں۔ جو لشکر کے میمنۃ اور میسرۃ (دائیں اور بائیں) ہوتے ہیں۔ 2۔ (عِمّيَّة، عُمّيَّة) : اس صورت ميں اس كا معنی شدت وسختی ہوگا۔ عَمّيَّة اس صورت ميں معنی جماعت ہوگا يا چچے کی یہ حدیث (واقعہ) ایک جماعت نے سنائی یا میرے چچوں نے سنائی ہو یا ابتدائی واقعات کا خود مشاہدہ کیا۔ اور لوگوں کے منتشر ہوجانے کے بعد والا حصہ دوسروں سے سنا۔ 3۔ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ اور يَا لَلْأَنْصَارِ میں لام استغاثہ کے لیے ہے اورچونکہ ان کو مددونصرت کے لیے بلایا جا رہا ہے اس لیے مفتوح ہے۔ اگر ان کی مدد مطلوب ہوتی تو پھر لام پر زیر ہوتی ہے جیسا کہ کہتے ہیں۔ (يا لَزَيْدٍ لِعَمْرٍ) اے زید! عمرو کی دادرسی کرو۔ عمرو کی مدد کرو۔ 4۔ چھ ہزار تعداد بتانا راوی کا وہم ہے صحیح تعداد، دس ہزار اور دو ہزار طلقاء یعنی کل بارہ ہزار ہے۔