حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن يزيد بن رومان ، عن صالح بن خوات ، عمن صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم ذات الرقاع صلاة الخوف، " ان طائفة صفت معه وطائفة وجاه العدو، فصلى بالذين معه ركعة، ثم ثبت قائما واتموا لانفسهم، ثم انصرفوا فصفوا وجاه العدو، وجاءت الطائفة الاخرى، فصلى بهم الركعة التي بقيت ثم ثبت جالسا واتموا لانفسهم ثم سلم بهم ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ ، عَمَّنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاةَ الْخَوْفِ، " أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ وَطَائِفَةٌ وِجَاهَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَصَفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى، فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ ".
یزید بن رومان نے صالح بن خوات سےاور انھوں نے اس شخص سے نقل کیا جس نے غزوہ ذات الرقاع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نمازخوف پڑھی تھی۔ کہ ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف بنائی اور دوسرا گروہ دشمن کے رو برو تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے اور انھوں نے اپنے طور پر (دوسری رکعت پڑھ کر) نماز مکمل کرلی اور (سلام پھیر کر) چلے گئے اور دشمن کے سامنے صف بند ہوگئے اور دوسرا گروہ آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رکعت رہتی تھی۔ ان کو پڑھا دی پھر بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنے طور پر (رکعت پڑھ کر) نماز مکمل کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
صالح بن خوات اس صحابی سےنقل کرتے ہیں، جس نے غزوہ ذات الرقاع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نمازخوف پڑھی تھی۔ کہ ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف بندی کیے ہوئے تھا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے اور انھوں نے اپنے طور پر دوسری رکعت پڑھ کر نماز مکمل کر لی (اور سلام پھیر کر) چلے گئے اور دشمن کے سامنے صف بند ہو گئے اور دوسرا گروہ آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رکعت رہتی تھی۔ ان کو پڑھا دی پھر بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنے طور پر نماز مکمل کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
صلى بالذين معه ركعة ثم ثبت قائما وأتموا لأنفسهم ثم انصرفوا فصفوا وجاه العدو وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة التي بقيت ثم ثبت جالسا وأتموا لأنفسهم ثم سلم بهم
طائفة صفت معه وطائفة وجاه العدو فصلى بالتي معه ركعة ثم ثبت قائما وأتموا لأنفسهم ثم انصرفوا وصفوا وجاه العدو وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة التي بقيت من صلاته ثم ثبت جالسا وأتموا لأنفسهم ثم سلم بهم
طائفة صفت معه وطائفة وجاه العدو فصلى بالذين معه ركعة ثم ثبت قائما وأتموا لأنفسهم ثم انصرفوا فصفوا وجاه العدو وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة التي بقيت من صلاته ثم ثبت جالسا وأتموا لأنفسهم ثم سلم بهم
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1948
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: پہلا گروہ آپﷺ کے ساتھ تکبیر تحریمہ اور پہلی رکعت میں شریک تھا دوسری رکعت اور سلام اپنے طور پر پھیرا اور دوسرا گروہ آپﷺ کے ساتھ آپ کی دوسری رکعت میں اور سلام پھیرنے میں شریک ہوا اور ایک رکعت اپنے طور پر پڑھی اور صالح بن خوات نے یہ روایت اپنے باپ خوات بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی ہے جیسا کہ امام ابن مندہ کی تصریح بلوغ المرام میں موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1948
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1538
´باب:` صالح بن خوات اس شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع کے دن خوف کی نماز پڑھی (وہ بیان کرتے ہیں) کہ ایک گروہ نے آپ کے ساتھ صف بنائی، اور دوسرا گروہ دشمن کے بالمقابل رہا، آپ نے ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ تھے ایک رکعت پڑھائی، پھر آپ کھڑے رہے، اور ان لوگوں نے خود سے دوسری رکعت پوری کی، پھر وہ لوگ لوٹ کر آئے، اور دشمن کے سامنے صف بستہ ہو گئے، اور دوسرا گروہ آیا تو آپ نے ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی جو آپ کی نماز سے باقی رہ گئی تھی، پھر آپ بیٹھے رہے، اور ان لوگوں نے اپنی دوسری رکعت خود سے پوری کی، پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1538]
1538۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے جس میں ہر گروہ کی دو رکعتیں اکٹھی پڑھی گئیں۔ ایک آپ کے ساتھ اور ایک الگ الگ۔ یہ صورت اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس میں دوران نماز میں آنا جانا نہ ہو گا بلکہ دونوں رکعتیں متصل پڑھی جائیں گی۔ ➋ ”ذات الرقاع“ رقاع جمع ہے ”رقعہ“ کی، اس کے معنی ہیں: ٹکڑا۔ اس جنگ کو غزوۂ ذات الرقاع یا تو اس لیے کہتے ہیں کہ اس غزوے میں جاتے ہوئے پتھروں کی وجہ سے مسلمانوں کے پاؤں زخمی ہو گئے اور انہیں پاؤں پر کپڑوں کے ٹکڑے باندھنے پڑے، یا اس لیے کہ اس علاقے کی زمین کے ٹکڑے مختلف رنگوں والے تھے، یعنی کچھ پہاڑیاں سرخ تھی، کچھ سفید اور کچھ سیاہ۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1538