13. باب: نماز چاشت کے استحباب کا بیان کم از کم اس کی دورکعتیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں اور درمیانی چار یا چھ ہیں اور ان کو ہمیشہ پڑھنے کی ترغیبیں۔
Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابي النضر ، ان ابا مرة مولى ام هانئ بنت ابي طالب اخبره، انه سمع ام هانئ بنت ابي طالب ، تقول: ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح، فوجدته يغتسل، وفاطمة ابنته تستره بثوب، قالت: فسلمت، فقال: من هذه؟ قلت: ام هانئ بنت ابي طالب، قال: مرحبا بام هانئ، فلما فرغ من غسله، " قام فصلى ثماني ركعات ملتحفا في ثوب واحد "، فلما انصرف، قلت: يا رسول الله، زعم ابن امي علي بن ابي طالب، انه قاتل رجلا اجرته فلان ابن هبيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ، قالت ام هانئ: وذلك ضحى.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ: أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، " قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ "، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ فُلَانُ ابْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ، قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَلِكَ ضُحًى.
ابو نضر سے روایت ہے کہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کو کپڑے سےچھپائے ہوئے تھیں (آگے پردہ کیا ہوا تھا) میں نے سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے؟میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔آپ نے فرمایا: "ام ہانی کو خوش آمدید!"جب آپ نہانے سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور صرف ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آٹھ رکعتیں پڑھیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ چاہتا ہے کہ ایک ایسے آدمی کو قتل کردے جسے میں نے پناہ دے چکی ہوں۔یعنی ہبیرہ کا بیٹا، فلاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امی ہانی! جس کو تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔"
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئی تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے ہوئے پایا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھی۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام ہانی کو خوش آمدید“ تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نہانے سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور آٹھ رکعات نماز پڑھی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسے آدمی کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں پناہ دے چکی ہوں جو فلاں ہے اور ہبیرة کا بیٹا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام ہانی جس کو تو نے پناہ دی ہم نے بھی پناہ دی“ ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا یہ چاشت کا وقت تھا۔
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1669
تخريج الحديث: [193۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 4 باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به 280، مسلم 336، ترمذي 2734] فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ کسی پردے کے مقام پر غسل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ عورت کا احترام کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کو قبول فرمایا ہے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 193
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1669
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا با پردہ نہانے والے شخص کو سلام کہنا اور اس سے ضروری گفتگو کرنا جائز ہے۔ جب کہ وہ کپڑا باندھے ہوئے کیونکہ آپﷺ بیٹی کے سامنے برہنہ نہیں ہو سکتے تھے۔ (2) اگر کسی انسان کو عورت پناہ دے دے تو وہ نافذ العمل ہو گی۔ اس کی پناہ کو توڑنا درست نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کا یہی موقف ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت کی دی ہوئی پناہ امام (امیر) کی صواب دید پر موقوف ہے۔ وہ برقرار رکھے یا توڑ دے اس کی مرضی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1669
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1579
´غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1579]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے، اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپﷺ کا فرمان: ”قد أجرنا من أجرت يا أم هاني“ سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے، اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1579
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3171
3171. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نےآپ کو سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”خوش آمدید ام ہانی! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرا ماں جایا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ فلاں شخص کو قتل کرے گا جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، اور وہ فلاں، ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ام ہانی ؓ! جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دے دی۔“ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ وہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3171]
حدیث حاشیہ: ہبیرہ ام ہانی کے خاوند تھے، جعدہ ان کے بیٹے تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت علی ؓ اپنے بھانجے کو کیوں مارتے، بعضوں نے کہا فلاں ابن ہبیرہ سے حارث بن ہشام محرومی مراد ہیں۔ غرض حدیث سے یہ نکلا کہ عورت کا پناہ دینا درست ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔ بعضوں نے کہا امام کو اختیار ہے۔ چاہے اس امان کو منظور کرے چاہے نہ کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3171
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6158
6158. سیدہ ام ہانی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے جبکہ آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے سلام عرض کیا تو آپ نے دریافت فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ام ہانی کو خوش آمدید“ جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور آٹھ رکعات ادا کیں۔ آپ اس وقت اپنا جسم ایک ہی کپڑے میں لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا بھائی اپنے خیال کے مطابق ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، یعنی فلان بن ہبیرہ کو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم نے بھی امان دی۔“ سیدہ ام ہانی نے کہا: اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6158]
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب یہاں سے نکلا کہ ام ہانی نے زعم ابن أمي کہا تولفظ زعموا کہنا جائز ہوا۔ فلاں سے مراد حارث بن ہشام یا عبداللہ بن ابی ربیعہ یا زہیر بن ابی امیہ تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی اسٹیٹ میں اگر مسلمان عورت بھی کسی کافر کو ذمی بنا کر پناہ دے دے تو قانوناً اس کی پناہ کو لاگو کیا جائے گا کیونکہ اس بارے میں عورت بھی ایک مسلمان مرد جتنا ہی حق رکھتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کوئی حق نہیں دیا گیا ان میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3171
3171. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نےآپ کو سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”خوش آمدید ام ہانی! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرا ماں جایا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ فلاں شخص کو قتل کرے گا جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، اور وہ فلاں، ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ام ہانی ؓ! جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دے دی۔“ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ وہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3171]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ام ہانی ؓ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئیں۔ اس وقت وہ ہبیرہ کے نکاح میں تھیں جن سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ ان میں سے ایک کانام ہانی تھا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ام ہانی تجویز ہوئی۔ 2۔ ابن ماحبشون کا کہنا ہے: عورت کا امان دینا مستقل حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ امام کی اجازت پر موقوف ہے جبکہ جمہور کا اس امر پر اجماع ہے کہ عورت کا امان دینا جائز اور صحیح ہے اور مستقل حیثیت رکھتاہے۔ امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پناہ کو برقراررکھا، نیز حضرت زینب بنت رسول ﷺ نے اپنے شوہر نامدار حضرت ابوالعاص کو پناہ دی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ جسے عورت پناہ دے دے اسے بھی قتل کرنا حرام ہے۔ (عمدة القاری: 521/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3171
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6158
6158. سیدہ ام ہانی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے جبکہ آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے سلام عرض کیا تو آپ نے دریافت فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ام ہانی کو خوش آمدید“ جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور آٹھ رکعات ادا کیں۔ آپ اس وقت اپنا جسم ایک ہی کپڑے میں لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا بھائی اپنے خیال کے مطابق ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، یعنی فلان بن ہبیرہ کو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم نے بھی امان دی۔“ سیدہ ام ہانی نے کہا: اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6158]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ''زَعَمَ ابن أُمي'' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ''زَعَمُوا'' استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کا استعمال ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح فرما دیتے۔ (2) لفظ زَعَمَ قول کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے محمد! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے کہا کہ آپ خود کو اللہ کے رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا ہے۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 102(12) الفاظ یہ ہیں: (أتانا رسولك فزعم لنا أنك تزعم أن الله أرسلك؟ قال: صدق) بہرحال لفظ زعم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6158