ابو اسامہ نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ انھوں نے (مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر واقع) بضَجنانَ پہاڑ پر اذان کہی۔۔۔پھر اوپر والی حدیث کے مانند بیان کیا اور (ابو اسامہ نے) کہا: " أَلَا صَلُّوا فِی الرِّحَالِکُم " اور انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دوبارہ" أَلَا صَلُّوا فِی الرِّحَالِ" کہنے کا ذکر نہیں کیا۔
نافع بیان کرتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ضجنان پہاڑ پر اذان کہی پھر اوپر والی بات بیان کی اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا (أَلَا صَلُّوْا فِي رِحَالِکُمْ) اس میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دوبارہ (أَلَا صَلُّوْا فِي رِحَالِکُمْ) کہنے کا ذکر نہیں ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1602
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے عذر اور مجبوری کی بنا پر اگر مسجد میں پہنچنا مشکل ہو تو نماز گھروں میں پڑھنا جائز ہے۔ ایسی صورت میں نماز باجماعت ضروری نہیں ہے۔ 2۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پہلے اذان عام دنوں کے مطابق دیتے تھے تاکہ جو لوگ مسجد میں آ سکتے ہوں آ جائیں اور اذان کے آخر میں رخصت کے کلمات کہہ دیتے تھے تاکہ جو کمزور بوڑھے اور مریض ہیں انہیں مسجد میں نہ آنے کی اجازت مل جائے۔ اس لیے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ کلمات اذان کے آخر میں کہنا بہتر ہے۔