8. باب: نماز کے اندر شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنا اور عمل قلیل کرنا درست ہے۔
Chapter: The permissibility of cursing the Shaitan during prayer, and seeking refuge with Allah from him; and the permissibility of doing a few actions while in salat
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام (کی حالت) میں تھے کہ ہم نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا:“ میں تجھ سے اللہ کی پنا میں آتا ہوں۔” پھر آپ نے فرمایا:“ میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں۔” آپ نے یہ تین بار کہا اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، گویا کہ آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آب کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے جو اس سے پہلے آب کو کبھی کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ (آگے) بڑھایا۔ آب نے فرمایا“ اللہ دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تھا تا کہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، میں نے تین دفعہ اعوذ باللہ منک“ میں تجھ سے اللہ کی پنا ہ مانگتا ہوں” کہا، پھر میں نے تین بار کہا: میں تجھ پر اللہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں۔ وہ پھر بھی پیچھے نہ ہٹا تو میں نے اسے پکڑ نے کا ارادہ کر لیا۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ والوں کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔”
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں تجھ سے اللّٰہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تجھ پر اللّٰہ کی لعنت بھیجتا ہوں“، تین بار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے ہم نے پوچھا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں کچھ کہتے سنا ہے، ہم نے اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے نہیں سنا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ بڑھاتے دیکھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰہ کا دشمن ابلیس، آگ کا ایک انگارا لے کر آیا تاکہ میرے چہرے پر ڈال دے تو میں نے تین دفعہ (اَعُوْذُ بِاللہِ مِنْكَ) کہا، پھر میں نے تین دفعہ کہا: ”میں تجھ پر اللّٰہ کی کامل لعنت بھیجتا ہوں“، وہ پیچھے نہ ہٹا پھر میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کر لیا، اللّٰہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان عَلیہِ السَّلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1211
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جن ایک مستقل اور انسانوں سے الگ مخلوق ہے جیسا کہ جنوں کا وجود قرآن مجید سے بھی ثابت ہے چونکہ جن عام لوگوں کی نگاہوں سے مستور اور مخفی رہتے ہیں اس لیے ان کو یہ نام ملا۔ (2) جنوں کو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے اور نہ عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن کبھی کبھار ان کو دیکھنا ممکن ہے جیسا کہ آپﷺ نے جن کو دیکھا اس کا گلا گھونٹا دھکا دیا اور اس کو باندھنے کا ارادہ فرمایا۔ (3) جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج میں داخل تھے اور ان کے بڑے بڑے مشکل اور زور طلب کام کرتے تھے اگر آپﷺ جن کو پکڑ کر ستون کے ساتھ باندھ دیتے تو یہ اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا کہ جنوں پر آپﷺ کو بھی قدرت و اقتدار حاصل ہے اس لیے آپﷺ نے اپنے ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ (4) کسی کو جن اگر تنگ کریں تو وہ ان پر لعنت بھیج سکتا ہے اور نماز میں بھی تَعَوَّذْ (اللہ کی پناہ) لینا جائز ہے جنوں کے حملہ سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہنا ہے۔