الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1208
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ کا تعلق نماز سے نہیں ہے کیونکہ اگر اس آیت کا تعلق نماز سے ہوتا تو جو آیت امام کے پیچھے قرآءت سے روکتی ہے اس نے بات چیت سے کیوں نہ روکا؟ اور اس آیت کے نزول کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نماز میں گفتگو کیوں کرتے رہے؟ (2)
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ﴾ سورہ اعراف کی آیت ہے اور باتفاق مکی آیت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ میں مسجد نبویﷺ میں آپﷺ کے پیچھے گفتگو کر لیتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سلام کا جواب بھی دے دیتے تھے جنگِ بنو مصطلق جو 5یا 6 ہجری میں ہوئی ہے اس سے کچھ پہلے کلام منسوخ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب بھی زبان سے دینا بند کر دیا اس سے ثابت ہوا اس آیت کا تعلق نماز کی قرآءت سے نہیں ہے وگرنہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ منورہ میں نماز میں گفتگو نہ کرتے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا جواب بول کر دیتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1208