وحدثنا قتيبة بن سعيد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم كلهم، عن جرير ، قال ابو بكر، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن موسى بن ابي عائشة ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله عز وجل: لا تحرك به لسانك سورة القيامة آية 16، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم، إذا نزل عليه جبريل بالوحي، كان مما يحرك به لسانه، وشفتيه، فيشتد عليه، فكان ذلك يعرف منه، فانزل الله تعالى لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16 اخذه إن علينا جمعه وقرءانه سورة القيامة آية 17 إن علينا ان نجمعه في صدرك وقرآنه فتقرؤه فإذا قراناه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18، قال: انزلناه فاستمع له إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19، ان نبينه بلسانك، فكان إذا اتاه جبريل اطرق، فإذا ذهب قراه كما وعده الله ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ كلهم، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ، كَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ، وَشَفَتَيْهِ، فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ، فَكَانَ ذَلِكَ يُعْرَفُ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16 أَخْذَهُ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17 إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَتَقْرَؤُهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، قَالَ: أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ لَهُ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19، أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ ".
جریر بن عبد الحمید نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ولا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ﴾ ”آپ اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں تاکہ اسے جلدی حاصل کر لیں۔“ کے بارے میں روایت بیان کی کہا: جب جبرائیل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ (اس کو پڑھنے کے لیے ساتھ ساتھ) اپنی زبان اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے، ایسا کرنا آپ پر گراں گزرتا تھا اور یہ آپ (کے چہرے) سے معلوم ہو جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: ” آپ اس (وحی کے پڑھنے) کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں کہ آپ اسے جلد سیکھ لیں۔ بے شک اس کو (آپ کے دل میں) سمیٹ رکھنا اور (آپ کی زبان سے) اس کی قراءت ہمارا ذمہ ہے۔“ یعنی ہمارا ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کو سینۂ مبارک میں جمع کریں اور اس کی قراءت (بھی ہمارے ذمے ہے) تاکہ آپ قراءت کریں۔ ”پھر جب ہم اسے پڑھیں (فرشتہ ہماری طرف سے تلاوت کرے) تو آپ اس کے پڑھنے کی اتباع کریں۔“ فرمایا: یعنی ہم اس کو نازل کریں تو آپ اس کو غور سے سنیں۔ ” اس کا واضح کر دینا بھی یقیناً ہمارے ذمے ہے“ کہ آ پ کی زبان س (لوگوں کے سامنے) بیان کر دیں، پھر جب جبرائیل رضی اللہ عنہ آپ کے پاس (وحی لے کر) آتے تو آپ سر جھکا کر غور سے سنتے اور جب وہ چلے جاتے تو اللہ کے وعدے کے مطابق آپ اس کی قراءت فرماتے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾ (القیامة: ۱۶) کے بارے میں روایت ہے کہ جب جبریل عَلیہِ السَّلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کے پاس وحی لے کر آتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبان اور ہونٹوں کو ہلایا کرتے تھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بہت سخت گزرتا اور یہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے معلوم ہو جاتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: ”آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اپنی زبان کو نہ ہلائیں، بے شک اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔“ یعنی قرآن آپ کے سینے میں جمع کر دینا اور اس کو پڑھوانا کہ آپ پڑھ سکیں ہمارے ذمہ ہے، پس جب ہم اس کو پڑھیں تو آپ اس کے پیچھے پڑھیں، یعنی جب ہم اس کو نازل کریں تو آپ اس کو غور سے سنیں، پھر اس کا بیان کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے، یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبان سے (لوگوں کے سامنے) بیان کرا دیں، اس لیے جب جبریل عَلیہِ السَّلام وحی لے کر آتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم گردن جھکا کر بیٹھ جاتے، اور جب وہ چلے جاتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے وعدہ کے مطابق پڑھنا شروع کر دیتے۔