(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، عن عبد العزيز بن محمد، عن العلاء، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قيل له: ما الغيبة؟. قال:"ذكرك اخاك بما يكره". قيل: وإن كان في اخي ما اقول؟. قال: "فإن كان فيه، فقد اغتبته، وإن لم يكن فيه، فقد بهته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: مَا الْغِيبَةُ؟. قَالَ:"ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ". قِيلَ: وَإِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟. قَالَ: "فَإِنْ كَانَ فِيهِ، فَقَدْ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ، فَقَدْ بَهَتَّهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ فرمایا: ”غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جو اسے ناگوار ہو۔“ عرض کیا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس میں جو تم کہہ رہے ہو وہ عیب موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں وہ عیب موجود نہیں تو تم نے اس کو بہتان لگایا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2756]» اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2589]، [أبوداؤد 4874]، [ترمذي 1934]، [أبويعلی 6493]، [ابن حبان 5758]، [الموارد 1820]
وضاحت: (تشریح احادیث 2747 سے 2749) غیبت کرنا حرام ہے، حکمِ الٰہی ہے: « ﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ .....﴾[الحجرات: 12] »(ترجمہ)”اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟“ معلوم ہوا کہ غیبت کرنا مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ «والعياذ باللّٰه» ۔ غیبت اور تہمت و بہتان دونوں ہی بڑے گناہوں میں سے ہیں اس لئے ان سے بچنا چاہیے۔
مثل المؤمن كمثل الخامة من الزرع تفيئها الرياح تصرعها مرة وتعدلها حتى يأتيه أجله مثل المنافق مثل الأرزة المجذية التي لا يصيبها شيء حتى يكون انجعافها مرة واحدة
مثل المؤمن كمثل الخامة من الزرع تفيئها الريح تصرعها مرة وتعدلها أخرى حتى تهيج مثل الكافر كمثل الأرزة المجذية على أصلها لا يفيئها شيء حتى يكون انجعافها مرة واحدة