سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر سے شہر میں غلہ لانے والوں کو آگے جا کر نہ ملو، اور جو شخص اس (قافلے) سے جا کر ملا اور اس سے کچھ سامان خرید بھی لیا تو اس بیچنے والے مالک کو منڈی میں پہنچنے کے بعد اختیار ہے (چاہے تو سودا باقی رکھے یا منسوخ کر دے)۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2601) اس حدیث میں دیہات سے سامان لے کر بیچنے کی غرض سے شہر آنے والوں سے ملنے اور ان سے بے خبری کی وجہ سے سستے داموں اشیاء خریدنے کی ممانعت ہے۔ مسلمان مسلمان کا خیرخواه، ہمدرد و غمگسار ہونا چاہے، اس طرح کے عمل سے خودغرضی اور مفاد پرستی کو ہوا ملتی ہے، اور تقویت ہوتی ہے کہ اپنا مفاد سامنے رکھا جائے، اور بے خبر لوگوں کی بے خبری سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ اور شہر آنے والے قافلوں سے ملاقات نہ کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکہ دہی اور ضرر رسانی سے بچ جائے، غبن اور خدع سے محفوظ ہو جائے، اور اسی طرح جو لوگ منڈی میں سامان خریدنے کے لئے آتے ہیں وہ لوگ فائدہ اور منافع حاصل کر لیتے ہیں، یہ تو معمول کا رواج ہے کہ قافلے اپنا سامان منڈی کے عام بھاؤ سے قدرے سستا فروخت کرتے ہیں۔ بہرحال اسلام نے دھوکہ دہی سے منع کیا اور قافلوں سے جا کر ملنے سے منع کیا تاکہ سیدھے سادے لوگ دھوکے میں خسارہ نہ اٹھائیں، اگر ایسی بیع و فروخت ہو بھی جائے تو مالکِ سلع کو منڈی میں پہنچنے پر اس بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2608]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2162]، [مسلم 1519]، [نسائي 4513]، [أبويعلی 6073]، [ابن حبان 4961]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه