سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، بدکار و فاحشہ عورت کی اجرت و کمائی، اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: کاہن کی شیرینی سے مراد وہ اجرت ہے جو وہ غیب کی باتیں بتا کر لیتا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2603) اس حدیث میں «مَهْرِ الْبَغِيِّ» سے مراد وہ کمائی ہے جو زنا کاری کے عوض زانیہ عورت حاصل کرتی ہے، اسے مجازاً مہر کہا گیا۔ کاہن اس کو کہتے ہیں جو مخفی اور پوشیدہ رازوں کے جاننے اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے متعلق پیشین گوئی کرنے کا دعویدار ہو، اور عراف، نجومی وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ «حُلْوَانِ الْكَاهِنِ» سے مراد وہ معاوضہ اور اجرت ہے جو کاہن کو اس کے عملِ کہانت کے بدلے میں دی جاتی ہے، یہ حلاوت کے لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی شیرینی و مٹھاس کے ہیں جو بلا مشقت نجومی و کاہن کو حاصل ہو جاتی ہے، اور «الْكَلْبِ» میں الف لام تعریف کا ہے جو جنسِ کلاب پر دلالت کرتا ہے، یعنی کسی بھی کتے کی قیمت دینا اور لینا جائز نہیں، خواہ وہ کتا شکار کے لئے ہو یا رکھوالی کے لئے۔ مذکورہ بالا تینوں چیز اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ناجائز ہیں، بلکہ کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت لینا اور دینا سب ہی حرام ہیں، کیونکہ کتا بذاتِ خود نجس ہونے کی بنا پرحرام ہے لہٰذا حرام چیز کی قیمت لینا بھی حرام، زنا بھی اسلام میں قطعی حرام، لہٰذا اس کی کمائی بھی حرام، پیشۂ کہانت حرام ہے تو اس کی اجرت بھی حرام ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شکاری اور فائدے مند کتے کی بیع درست ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2610]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2237]، [مسلم 1567]، [أبوداؤد 3428]، [ترمذي 1133]، [نسائي 4303]، [ابن ماجه 2159]، [ابن حبان 5157]، [الحميدي 455]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه