(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن ابي سعيد الخدري، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين، وعن لبستين: عن بيع المنابذة والملامسة". قال عبد الله: المنابذة: يرمي هذا إلى ذاك. ويرمي ذاك إلى هذا. قال: كان هذا في الجاهلية.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ، وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ: عَنْ بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: الْمُنَابَذَةُ: يَرْمِي هَذَا إِلَى ذَاكَ. وَيَرْمِي ذَاكَ إِلَى هذَا. قَالَ: كَانَ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع سے اور دو قسم کے پہناوے سے اور منابذۃ و ملامسۃ سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بیع منابذہ یہ ہے کہ بائع مشتری کی طرف اور مشتری بائع کی طرف (کپڑا وغیرہ) پھینکے، (اور اس سے بیع تمام ہو جائے) یہ دورِ جاہلیت کی خرید و فروخت تھی۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2596 سے 2598) اس حدیث میں دو بیع اور دو لباس کے پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ منابذہ یہ ہے کہ مشتری بائع کی طرف کپڑا پھینکے اور بدلے میں بائع مشتری کی طرف کپڑا پھینکے جو اس کی قیمت کے بدلے میں ہو، جب ایسا کریں تو بیع واجب ہو جائے۔ ملامسہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کہے کہ تم نے میرا کپڑا چھو لیا، میں نے تمہارا کپڑا چھو لیا تو بیع مکمل و واجب ہو جائے گی اور اس کے بعد تمہیں فسخ کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔ بخاری و مسلم میں ان دونوں بیع کی تفسیر اسی طرح ہے کہ خریدار دن ہو یا رات دوسرے کے کپڑے کو بنا دیکھے اور الٹ پلٹ کئے ہاتھ لگا دے اور اسی پر سودا کر لے، یہ ملامسہ ہے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ بائع اور مشتری ایک دوسرے کی جانب اپنا کپڑا پھینکیں، اور پھینکنا ہی دونوں کے درمیان بغیر دیکھے اور باہمی رضامندی کے ساتھ بیع قرار پائے، اور محض ہاتھ لگانا اور کپڑا پھینکنا ہی دیکھنے اور ملاحظہ کرنے کے قائم مقام ہو، اس کے بعد پھر کسی کو دیکھنے کا اختیار باقی نہ رہے، یا اسے ایجاب و قبول کے قائم مقام سمجھا جائے، یا مجلس کے اختیار کے لئے یہ قطعی اور حتمی ہو، ان دونوں بیعوں سے منع کیا کیونکہ ان میں دھوکہ ہے، اور یہ شرط فاسد ہے کہ دیکھنے پر کسی کو اختیار نہ ہوگا بیع کو فسخ کرنے کا، اس حدیث میں «لِبْسَتَيْنِ» سے مراد اشتمال الصماء اور احتباء ہے۔ اوّل الذکر یہ ہے کہ ایک کپڑا لے کر اس کو سارے بدن پر اس طرح سے لپیٹ لے کہ ہاتھ ہلانے اور پاؤں نکالنے کی گنجائش نہ رہے، اور اس میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اور کبھی کپڑا چھوٹا ہوتا ہے تو سامنے سے ستر کھل جاتا ہے، اس لئے اس سے منع کیا گیا۔ احتباء ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ شرمگاہ پر کچھ نہ ہو، کیونکہ اس طرح اوکڑو بیٹھنے سے ستر کھلا رہ جائے گا اور بے ادبی ہوتی ہے، اس لئے اس سے بھی منع کیا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2604]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 367]، [مسلم 1512]، [أبوداؤد 3377]، [نسائي 4524]، [ابن ماجه 2169]، [أبويعلی 976]، [ابن حبان 4976]، [الحميدي 747]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه