سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی ویسے ہی مروی ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2413 سے 2416) «عُجْمَاء» اور «سَائِمَة» سے مراد جانور چوپائے، اور «جُبَارٌ» ضمان و تاوان کو کہتے ہیں، اور «مَعْدَنِ» اس جگہ یا کان کو کہتے ہیں جہاں سونا چاندی اور جواہرات پائے جائیں، اور «رِكَاز» وہ خزانہ اور دفینہ ہے جو پرانے زمانے میں کسی نے دفن کیا ہو اور اس کے مالک موجود نہ ہوں۔ ایسے دفینے کو جو شخص پائے گا اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کو ادا کرے گا، باقی سب پانے والے کا ہوگا۔ اسی طرح کسی آدمی کے کنویں میں گر کر کوئی شخص ہلاک ہو جائے تو صاحبِ کنواں پر تاوان و دیت نہیں، اور کان کنوں میں سے کوئی کان گرنے سے مر جائے تو اس میں بھی کوئی تاوان نہیں، دفینے میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2424]» ترجمہ و تخریج اوپر گزر چکی ہے۔