(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يحل دم رجل يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله إلا احد ثلاثة نفر: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والتارك لدينه، المفارق للجماعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا أَحَدُ ثَلَاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ، الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی آدمی کا خون حلال نہیں ہے جو شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں الله کا رسول ہوں مگر تین شخص (چاہے وہ مسلمان ہوں تب بھی) اس سے مستثنی ہیں۔ جان کے بدلے جان، شادی شدہ زنا کار، اور اپنے دین کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہونے والا۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2333 سے 2335) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو بھی مسلمان ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرے گا وہ حلال الدم ہے اور اس کو سزا دی جائے گی، کوئی مسلمان کسی بھی مسلمان کو جان بوجھ کر اگر قتل کرے گا تو بدلے میں اس کا بھی سر قلم کر دیا جائے گا، اسی طرح مسلمان بہن بیٹیوں کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے والا شادی شدہ ہے تو اس کا خون حلال ہے اسے سنگسار کر دیا جائے گا، اور غیر شادی شدہ کو سو (100) کوڑے لگائے جائیں گے، اسی طرح جو مسلمان مرتد ہو جائے تو اس کا خون بہانا جائز و درست ہے اور ایسا شخص کافر اور مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہے اسے قتل کر دیا جائے گا، معلوم ہوا کہ قتل، زنا اور کفر اتنے سنگین جرائم ہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والا چاہے لا الٰہ الا الله محمد رسول اللہ کا قائل ہو پھر بھی قتل کر دیا جائے گا۔ سعودی عرب میں ان امور پر عمل ہوتا ہے اور شریعت کے مطابق ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے جس کی برکت سے یہاں امن و امان قائم اور جان و مال قدرے محفوظ ہیں۔ «أدام اللّٰه هذه البركات فى هذه البلاد الطاهرة.» آمین۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2344]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6878]، [مسلم 1676]، [أبوداؤد 4352]، [ترمذي 1402]، [نسائي 4027]، [ابن ماجه 2534]، [أبويعلی 5202]، [ابن حبان 4407]، [الحميدي 119، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه