سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2337) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب تک نصابِ سرقہ مکمل نہ ہو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، جمہور علماء کرام کی یہی رائے ہے۔ کچھ علماء نے قلیل و کثیر ہر چوری پر قطعِ ید کی سزا کو واجب قرار دیا ہے جو صحیح نہیں۔ اس سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث صریح اور واضح ہے، جس سے آیتِ شریفہ: « ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾ » کی تحدید و تخصیص ہو جاتی ہے۔ پھر نصاب کے بارے میں مختلف اقوال ہیں جن میں زیادہ مشہور یہ دو قول ہیں: (1) پہلا یہ کہ سونے میں نصاب ایک دینار کا چوتھا حصہ، اور چاندی میں تین درہم۔ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ دس درہم نصاب ہے، اس سے کم میں قطع ید کی سزا نہیں دی جاسکتی، سفیان ثوری و احناف کا یہ قول ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے مذکورہ بالا متفق علیہ احادیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک دینار کا وزن چار ماشہ سونا، اور درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی گویا چوتھائی دینار، اور تین درہم ہم وزن ہیں، اس سے کم قیمت چوری پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی، سونے یا چاندی کے علاوہ کسی چیز کی چوری کرے تو اس کا نصاب تین درہم کے حساب سے ہوگا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال پر جس کی قیمت دس درہم تھی چور کا ہاتھ کاٹا۔ یہ روایت اولاً تو تین درہم والی روایت کے خلاف نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے ایک بار تین درہم کی ڈھال پر اور دوسری بار دس درہم کی قیمت کی ڈھال پر ہاتھ کاٹا، اس سے کم سے کم نصاب معلوم ہوا، نیز دس درہم والی روایت متفق علیہ ربع دینار یا تین درہم کے مقابلے میں کم درجہ کی ہے اس لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب و مسلک ہی راجح اور قوی ہے۔ والله اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2347]» اس روایت کی سند صحیح اورحدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6795]، [مسلم 1686]، [أبوداؤد 4385]، [نسائي 4923]، [أبويعلی 5833]، [ابن حبان 4461، 4464]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه